۶۔ خُدا کے بارے میں ماہرین، علما ، شعرا اور سائنسدانوں کے اقوال

؎آگہی میں اک خلا موجود ہے
اس کا مطلب ہے خدا موجود ہے
(عبد الحمید عدمؔ)

؎تعریف اس خدا کی جس نے جہاں بنایا
کیسی زمیں بنائی کیا آسماں بنایا
(اسماعیل ؔمیرٹھی)

؎سامنے ہے جو اُسے لوگ برا کہتے ہیں
جس کو دیکھا ہی نہیں اس کو خدا کہتے ہیں
(سدرشن فاکرؔ)

؎بس جان گیا میں تری پہچان یہی ہے
تو دل میں تو آتا ہے سمجھ میں نہیں آتا
(اکبر ؔالہ آبادی)

؎جگ میں آ کر ادھر ادھر دیکھا
تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا
(خواجہ میر دردؔ)

آئزک نیوٹن (1643 – 1727):
’’ہمارا علم ایک قطرے کے برابر ہے اور ایک بڑے سمندر کے برابر علم ابھی باقی ہے۔ بلاشبہ مظاہرِ کائنات کی کامل ترتیب اور ہم آہنگی ضرور کسی علیمِ کُل اور ہمہ گیر ہستی کے کامل منصوبے کا شاخسانہ ہے۔‘‘

چارلس ڈارون (1809 – 1882):
’’مَیں نے کبھی خُدا کے وجود کا انکار نہیں کیا ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ نظریۂ ارتقا کی اساس خُدا کے وجود پر ایمان میں مضمر ہے۔ میری دانست میں وجودِ خُدا کی سب سے بڑی دلیل کہ اِس قدر وسیع و عریض کائنات میں، جو ہر زاوئیے سے بالائے پیمائش ہے، اور رویِ زمین پر بسنے والا انسان کسی اتفاق یا حادثے کا نتیجہ ہیں۔‘‘

تھامس ایڈیسن (1847 – 1931):
’’میرے دل میں سب انجینئرز کے لئے بڑی قدر پائی جاتی ہے خصوصاً سب سے بڑے انجینئر خُدا کے لئے تو سب سے زیادہ۔‘‘

البرٹ آئن سٹائن (1879 – 1955):
’’سائنس کی ترویج و ترقی کے لئے سنجیدگی کے ساتھ اپنی کاوشوں کو وقف کرنے والا ہر شخص اِس بات کو تسلیم کئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ تمام قوانینِ فطرت کے پیچھے ضرور ایک ایسی روحانی و عرفانی قوت کارفرما ہے، جس کی طاقت کے سامنے ہمیں عاجز ہونا پڑتا ہے۔‘‘

سی ایس لیوس:
’’مَیں مسیحیت پر اتنا ہی ایمان رکھتا ہوں جتنا کہ طلوعِ آفتاب پر، صرف اِس لئے نہیں کہ وہ مجھے نظر آتا ہے بلکہ اِس لئے کہ اُس کے ذریعے مجھے باقی ہر چیز بھی صاف نظر آتی ہے۔‘‘