باب پنجم
محبت دراصل کیا ہے اور ہمیں کیسی محبت کا اظہار کرنا چاہئے؟

محبت ایک بہت وسیع مضمون ہے۔ محبت کیا ہے؟ محبت ایک لطیف، پاکیزہ اور الہٰی جذبے کا نام ہے۔ محبت کا دائرہ کار بہت کشادہ ہے جس میں سب سے پہلے خدا سے محبت، پھر والدین سے محبت، بہن بھائیوں سے محبت ، اپنے پڑوسی سے محبت نیز اپنے یا اپنی شریکِ حیات کے ساتھ ازدواجی محبت وغیرہ شامل ہے۔ یاد رکھئے کہ محبت ایک پاکیزہ جذبہ ہے اسلئے جہاں تک پاکیزگی کارفرما نظر آئے وہاں محبت کی تصدیق کی جا سکتی ہے مگر جہاں پاکیزگی اور احترام مفقود ہو وہ محبت نہیں بلکہ ہوس ہے۔ اور یہاں میں برملا یہ بات کہہ دینا چاہتا ہوں کہ ہم Valentine’s Day پر جس محبت کا ڈھونڈورا پیٹتے ہیں وہ دراصل محبت (love) نہیں بلکہ ہوس (lust) ہے۔ میں یہاں پر اس کے فرق کی مزید تفصیل میں نہیں پڑنا چاہتا بلکہ محض اپنے دلی تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے سادہ لفظوں میں محبت کے لطیف جذبے کو موجودہ حالات کے پیرائے میں بیان کرنا چاہتا ہوں تاکہ شاید کسی گمراہ کی بہتر رہنمائی ہو سکے۔

یہ ایک عام فہم بات ہے کہ محبت کے دو عمومی پہلو ہوتے ہیں: (۱) دنیاوی محبت اور (۲) الہٰی محبت۔
۱۔ دنیاوی محبت (غیر حقیقی):

مقامِ افسوس یہ ہے کہ آج کی دنیا میں محبت کا لفظ اپنی اصل روح کھو بیٹھا ہے۔ میں یہاں ماں باپ یا بہن بھائیوں کی پاکیزہ و برادرانہ محبت کا ذکر نہیں کر رہا بلکہ یہاں میرا موضوع ِ سخن وہ محبت ہے جس میں آج نوجوان طبقہ بُری طرح گرفتار ہے۔ شاید آپ میرا اشارہ سمجھ رہے ہیں! جی ہاں مَیں عاشقانہ محبت کی بات کر رہا ہے جسے ہم سب گلیوں ، بازاروں، خاندانوں اور افسوس کہ کلیسیاؤں کے اندر موجود نوجوانوں اور جوانوں بلکہ کئی معاملات میں ادھیڑ عمروں اور بزرگوں کی آنکھوں میں خاصی وافر مقدار میں دیکھ اور محسوس کر سکتے ہیں۔ اس نام نہاد محبت نے ہمارے معاشرے کو کہیں کا نہیں چھوڑا کیونکہ ہر عمر اور طبقے کا انسان اس میں لت پت ہے۔

ذرا مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس دنیاوی محبت کی چند صفات آپ کے سامنے رکھوں:
  1. یہ محبت نہیں بلکہ مخالف جنس کی فطری کشش ہے جسے محبت کا نام دے دیا جاتا ہے۔ سامنے کا شخص اگر آنکھوں کو بھا جائے یعنی خوبصورت لگے تو دل پھینک قماش کے لوگ اپنا دل ہار بیٹھتے ہیں۔ اس معاملے میں بات تو دل کی کی جاتی ہے مگر مرکزِ نگاہ بدن یا چہرہ ہوتا ہے اور اسی لئے خوبصورتی یا دولت اس قسم کی محبت کا ترجیحی پیمانہ ہوتی ہے۔
  2. یہ محبت محض وقت گزاری بھی ہو سکتی ہے۔ آج کل اس بات کا بڑا ٹرینڈ ہے کہ جب تک ماں باپ کہیں اچھی جگہ پر رشتہ نہیں کرتے تب تک گرل فرینڈ اور بوائے فرینڈ رکھنے میں کوئی قباحت نہیں۔ بعض افراد تو اس کام میں اس حد تک بڑھ جاتے ہیں کہ ایک ایک شخص کی ایک سے زیادہ گرل فرینڈز یا بوائے فرینڈز ہوتے ہیں اور اس کام کو وقت گزاری یا ٹائم پاس کا نام دیا جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہی وقت گزاری بعد میں ایسی گلے پڑتی ہے کہ انسان پھر ’’اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت‘‘ کے مصداق رونے پیٹنے اور اندر ہی اندر گھلنے کے سوا اَور کچھ نہیں کر پاتا۔ بعد میں جب ان کے اپنے بچے جوان کر ایسی یا ان سے بڑھ کر ’’حرکتیں‘‘ کرتے ہیں تو پھر ان کو منع کرتے ہوئے خود ہی شرم آتی ہے کیونکہ پتہ ہوتا ہے کہ یہی گلچھرے ہم بھی اپنے وقت میں اڑاتے رہے ہیں اور یاد رکھئے گا کہ اولاد ہمیشہ ماں باپ سے زیادہ بڑھ کر اور جدید طریقوں سے کام کرتی ہے۔ چنانچہ نسل در نسل بربادی اور تباہی کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
  3. یہ محبت جھوٹی ہوتی ہے اور احساسِ محرومی پیدا کرتی ہے۔
  4. یہ محبت زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتی کیونکہ یہ وقتی دلاسوں، جھوٹے وعدوں، عذر بہانوں اور فریب پر قائم ہوتی ہے۔
  5. یہ محبت صاف دامن کو داغدار کر دیتی ہے اور جب انتہائی حدوں کو چھونے لگتی ہے تو دربدر رسوا کر دیتی ہے۔ ایسی محبت کے ہاتھوں مجبور ہو کر جان اور عزت بچانے کی خاطر ایک شہر سے دوسرے شہر یا ایک صوبے سے دوسرے صوبے میں دور دراز چھپ چھپا کر ذلت و رسوائی کی زندگی گزارتے پھرتے ہیں۔ اچھی بھلی عزت یکسر خاک میں مل جاتی ہے اور ہم سب ایسی متعدد کہانیوں کو جانتے ہیں۔
  6. یہ محبت انسان کو حقیقی اور الہٰی محبت سے دور کر دیتی ہے۔
  7. یہ محبت جسم کی خواہش، آنکھوں کی خواہش اور زندگی کی شیخی پیدا کرتی ہے۔
  8. یہ محبت خوف پیدا کرتی ہے کیونکہ ایسا شخص اپنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کرتا ہے اور معاشرے کی پابندیوں اور ضمیر کے ہاتھوں پریشان رہتا ہے۔
اس محبت میں پھنسے ہوئے لوگوں کے نزدیک محبت (LOVE) کی حقیقت محض یہ ہوتی ہے:
L = Land of Sorrow
دکھ کی سرزمین
O = Ocean of Tears
آنسوؤں کا سمندر
V = Valley of Death
موت کی وادی
E = End of Life
زندگی کا خاتمہ
۲۔ الہٰی محبت (حقیقی محبت) :

حقیقی محبت دراصل وہ محبت ہے جو خدا نے ہمارے دِلوں میں خود اپنے لئے اور دوسرے انسانوں کے لئے جاگزین کر رکھی ہے۔ اسے الہٰی محبت کہا جاتا ہے۔ یہ محبت خدا نے ہر ایک انسان کے باطن میں رکھی ہے جس کے باعث انسان خدا کی تلاش کرتا اور اس کی عبادت کرتا ہے اور انسانی معاشرے میں رہتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آتا ہے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس محبت کے دو رُخ ہیں یعنی خدا سے محبت اور پھر دوسرے انسانوں سے محبت۔ خدا سے محبت تو کسی خرابی کا شکار نہیں ہو سکتی کیونکہ خدا پاک ہے اور روح بھی۔ لیکن جب ہم اسی محبت کو انسانوں کی جانب بڑھانے لگتے ہیں تو بگاڑ پیدا کر بیٹھتے ہیں کیونکہ ہم اجنبی انسانوں سے محبت کے نام پر ہوس کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مگر خدا کا شکر ہو کہ اسی دنیا میں الہٰی محبت کا پاکیزہ جذبہ کلیسیائی محبت کی صورت میں رویِ زمین پر پوری آب و تاب کے ساتھ موجود ہے۔ خدا کے گھر میں ہم سب بہن بھائیوں اور خدا کے برگزیدہ فرزندوں کی مانند ہوتے ہیں۔ جب کبھی میں اس الہٰی محبت کا ذکر کرتا ہوں تو مجھے اسی الہٰی محبت کا عظیم ترین نشان صلیب یاد آ جاتی ہے۔

صلیب کے نشان میں الہٰی محبت کا مکاشفہ:

آپ جانتے ہیں کہ صلیب کے نشان کا خاکہ بناتے وقت ہم پہلے اوپر سے نیچے کی جانب لکیر کھینچتے ہیں اور پھر عین وسط سے تھوڑا اوپر دائیں سے بائیں یا بائیں سے دائیں ایک اور لکیر کھینچتے ہیں۔ یہی الہٰی محبت کا اصول بھی ہے۔ یعنی الہٰی محبت پہلے اوپر سے نیچے کی طرف آتی ہے یعنی خدا کی طرف سے ہم انسانوں میں اور پھر ہم انسان اس محبت کو نیچے اوپر کی طرف یعنی واپس خدا کے ساتھ اور پھر دائیں سے بائیں یعنی اپنے ہم جنس انسانوں کی طرف بڑھاتے اور پھیلاتے ہیں۔ سادہ لفظوں میں یوں کہہ لیجئے کہ اوپر سے نیچے کی طرف آنے والے عمودی لکیر خدا کی انسان کے ساتھ اور انسان کی خدا کے ساتھ محبت کا نشان ہے اور دائیں سے بائیں جانے والی افقی لکیر انسانوں کے درمیان ایک دوسرے کے لئے پائی جانے والی الہٰی محبت کو پیش کرتی ہے۔ اس محبت کو یونانی زبان میں ’’اگاپے ‘‘ کہا گیا ہے یعنی الہٰی و برادرانہ محبت۔ آئیے اب ذرا اس الہٰی محبت کی چند صفات دیکھیں:

  1. یہ محبت سراسر پاک اور مقدس ہوتی ہے کیونکہ اس میں خدا بذاتِ خود شامل ہوتا ہے۔
  2. یہ محبت بے ریا اور بے غرض ہوتی ہے جس کی مثال یوحنا ۳: ۱۶ میں یوں ملتی ہے کہ ’’خدا نے دنیا سے ایسی محبت رکھی ۔۔۔‘‘
  3. یہ محبت سچی ہوتی ہے اور اعتماد، ایمان اور بھروسہ پیدا کرتی ہے۔
  4. یہ محبت دائمی ، لازوال اور انمول ہوتی ہے۔
  5. یہ محبت آنکھوں پر حیا ، احترام اور پاکیزگی کی پٹی باندھ دیتی ہے جس کے باعث ہم ہر دوسرے شخص کو عزت اور شرم کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
  6. یہ محبت ہمیں انسانیت کی قدر کرنا سکھاتی ہے جس کے باعث ہم خدا کی مخلوقات کو خدا کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
  7. یہ محبت ایمانداروں کی برکت اور روحانی قوت کا بھید ہے۔
  8. یہ محبت ہماری زندگیوں میں ابدی اطمینان اور شادمانی پیدا کرتی ہے۔
  9. اس محبت کی اہم خصوصیات بائبل مقدس کے اندر ۱۔ کرنتھیوں ۱۳باب میں تفصیل کے ساتھ درج ہیں کہ یہ محبت ’’صابر اور مہربان ہے ، حسد نہیں کرتی، شیخی نہیں مارتی، پھولتی نہیں ، نازیبا کام نہیں کرتی، اپنی بہتری نہیں چاہتی ، جھنجھلاتی نہیں ، بدگمانی نہیں کرتی، بدکاری سے خوش نہیں ہوتی بلکہ راستی سے خوش ہوتی ہے ، سب کچھ سہہ لیتی ہے ، سب کچھ یقین کرتی ہے، سب باتوں کی امید رکھتی ہے ، سب باتوں کی برداشت کرتی ہے۔۔۔‘‘
  10. یہ محبت، روح کا پہلا پھل ہے۔ خداوند کا خوف اور روح القدس کی معموری و حضوری کے وسیلہ سے یہ پھل ہماری زندگی میں پیدا ہوتا ہے۔
ایسی محبت رکھنے والوں کے نزدیک محبت (LOVE) کی حقیقت قطعی طور پر مختلف اور کچھ ایسی ہوتی ہے:
L = Long Suffering
تحمل
O = Obedience
تابعداری
V = Victory
فتح مندی
E = Eternal Life
ابدی زندگی
ہمیں خدا کے لوگ ہونے کی حیثیت سے چاہئے کہ ہم اسی الہٰی محبت کا اپنی زندگیوں سے اظہار کریں۔ ہم انسانوں سے ضرور محبت رکھیں مگر پاک اور بے ریا محبت جس میں دنیاوی محبت شامل نہ ہو یعنی ویسی محبت جیسی خدا سب انسانوں سے روا رکھتا ہے۔