۵۔ خُدا کے وجود کا انکار کرنے والے لوگوں کے لئے چند قابلِ غور باتیں

  1. اِس ضمن میں، سب سے پہلے تو مَیں خُدا کی محبت ، مہربانی اور تحمل کا ذکر کرنا چاہوں گا کہ وہ اپنے نہ ماننے والوں پر بھی کس طرح اپنے رحم اور فضل کو جاری رکھتا اور مسرف بیٹے کے باپ کی طرح آنکھیں اُٹھا کر اور بانہیں پھیلا کر اُن کا انتظار کرتا ہے کہ ایک نہ ایک دِن وہ ضرور اُس پر ایمان لائیں گے۔ اِس حوالے سے بائبل مقدس ہمیں بتاتی ہے کہ:
  2. ایک بات یاد رکھیں۔ خُدا کو قطعاً ضرورت نہیں کہ مَیں اور آپ مناظروں، مجادلوں، تحریروں، کتابوں اور ویڈیوز کے ذریعے اُس کے وجود کو ثابت کریں۔ اُس کا وجود ایک لازوال آفاقی حقیقت ہے جس کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔
  3. مَیں حیران ہوں کہ امریکہ میں بیٹھ کر الحاد کا پرچار کرنے والے جس امریکی کرنسی کو استعمال کرتے ہیں اُس کے اوپر جلی حروف میں لکھا ہے ’’In God We Trust‘‘۔ ۔۔ بیچارے!
  4. ایک اَور اٹل حقیقت بہرکیف سچ ہے کہ انسان کو خُدا کی ضرورت ہے خُدا کو نہیں۔
  5. پھر یہ بھی کہ میرے اور آپ سے زیادہ پڑھے لکھے اور عالم فاضل یعنی ارسطو اور افلاطون ہر زمانے میں اِس دُنیا کے اندر موجود رہے ہیں اور اُن میں کوئی اپنے طور پر خُدا کے وجود کو پوری طرح ثابت کر پایا نہ ہی جھٹلا پایا ہے۔ خُدا کی ذات کل بھی دُنیا کی سب سے بڑی حقیقت تھی، آج بھی ہے اور تاابد رہے گی۔
  6. خُدا کے وجود پر بات کرنے سے پہلے عدم کو سمجھیں۔ ازل یا ازلیت کیا ہے۔
  7. خُدا کی باری بہت بعد میں آتی ہے۔ بقول شاعر: ہم ہیں تو خُدا بھی ہے۔
  8. پہلے یہ دیکھیں کہ بطور انسان ہماری اپنی حقیقت کیا ہے؟ آپ پیدا ہونے سے پہلے کہاں تھے؟ پہلے ذرا انسان کی اپنی حقیقت کو تو سمجھ لیں کہ انسان کیا ہے، انسان کی روح کیا ہے، سانس لینے کی حقیقت کس دم پر قائم و دائم ہے، موت کیا ہے، رزق کیا ہے، مظاہر کائنات کی حقیقت کیا ہے اور مجھے پورا یقین ہے کہ اِسی میں آپ کی پوری عمر بیت جائے گی اور خُدا تک پہنچنا تو درکنار آپ اپنی ذات کے مکمل بھید کو پوری طرح سمجھ نہیں پائیں گے اور جس دِن سمجھ گئے اُسی دِن آپ خُدا تک بھی پہنچ جائیں گے کیونکہ خالق تک پہنچنے کا آسان ترین عمومی راستہ اُس کی بنائی ہوئی مخلوقات کی حقیقت کو جاننے میں مضمر ہے۔
  9. خُدا نے اپنی ذات کو انسان سے پوشیدہ رکھا ہے مگر صرف کھوج لگانے کے لئے۔ کوئی اُس تک پہنچ نہیں سکتا۔ کیا سائنس بتا سکتی ہے کہ اِس نیلے آسمان کے پیچھے کیا ہے؟ وہاں تک کوئی نہیں پہنچ سکا اور نہ پہنچ سکے گا۔ خُدا تک پہنچنے کی ایسی کوشش نہ کریں کہ آپ اُس سے بالکل منکر ہو جائیں۔ سائنس کا اصل مسئلہ یہی ہے۔
  10. نمرود کی مثال: نمرود نے کہا تھا کہ مَیں اپنا برج آسمان تک لے کر جاؤں گا۔ وہاں تک کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ یہ چیزیں خُدا نے انسان کی دسترس سے پرے رکھی ہیں۔
  11. مثال: اسکول کی بچی نے گھر آکر اپنی ماں کو بتایا کہ ماں مَیں نے آج پوری کلاس میں ٹیچر کو لاجواب کر دیا تھا۔ ٹیچر نے کہا کہ خُدا کا کوئی وجود نہیں۔ بچی نے کہا کہ نہیں مس ہماری سنڈے اسکول ٹیچر نے پچھلے ہی اتوار ہمیں سکھایا تھا کہ خُدا نے کس طرح موسیٰؔ کی قیادت میں بنی اسرائیل کو بحرِ قلزم سے پار کرایا تھا۔ ٹیچر نے کہا نہیں نہیں یہ سب جھوٹ اور من گھڑت کہانیاں ہیں۔ سائنس نے ثابت کیا ہے کہ بحرِ قلزم کے جس مقام سے بنی اسرائیل گزرے تھے وہاں ویسے ہی چھ چھ انچ پانی تھا۔ دریاؤں اور سمندروں میں اکثر ایسے مقامات پائے جاتے ہیں۔ جس پر اُس ننھی مگر ذہین بچی نے ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا، چلیں مس پھر بھی مانیں کہ خُدا موجود ہے جس نے اُس چھ چھ انچ پانی میں فرعون اور اُس کے پورے لشکر کو غرق کر دیا تھا۔
  12. مثال: ایک ملحد آدمی ایک مسیحی کا پڑوسی تھا۔ مسیحی آدمی کا معمول تھا کہ وہ گھر کے سامنے والے لان میں آ کر ہر روز صبح صبح ورزش کرتا اور خُدا کی حمد کے گیت اونچی آواز میں گنگناتا رہتا تھا۔ اُدھر دہریہ بھی ہر روز نکل کر اُس سے زیادہ اونچی آواز میں نعرے لگاتا کہ خُدا کا کوئی وجود نہیں۔ دہریہ ہر روز سوچتا تھا کہ کس طرح اُس پر ثابت کرے کہ خُدا کا کوئی وجود نہیں۔ کرتے کرتے ایسا ہوا کہ مسیحی بیچارے کی نوکری چھوٹ گئی اور اُس پر بڑا مشکل وقت آگیا یہاں تک کہ اُس کے پاس کھانے کے لئے بھی کچھ نہ بچا۔ یہ بات دہرئیے کو معلوم ہو گئی۔ اگلے ہی دِن اُس نے بازار میں جا کر پورا تھیلا گھر کے راشن کا بھرا اور مسیحی کے گھر سے نکلنے سے پہلے اُس کے بڑے دروازے کے سامنے رکھ کر خود ایک اوٹ میں کھڑا ہو کر نظارا دیکھنے لگا۔ تھوڑی دیر بعد جب وہ مسیحی باہر آیا تو سیدھا اُس تھیلے کی طرف بڑھا اور پھر ہاتھ اُٹھا اُٹھا کر خُدا کی شکرگزاری کرنے لگا۔ اِس پر وہ ملحد درخت کی اوٹ سے باہر نکل آیا اور کہنے لگا کیا ہُوا۔ جس پر مسیحی نے کہا دیکھ میرے خُدا نے کس طرح میرے لئے کھانے کی چیزوں کا انتظام کیا ہے۔ وہ دہریہ کہنے لگا، ارے خُدا نے کہاں سے انتظام کیا ہے ، دیکھ یہ سب مَیں تیرے لئے لے کر آیا ہوں۔ کوئی خُدا نہیں۔ یہ مَیں لایا ہوں۔ اِس پر مسیحی نے اَور زیادہ جوش کےساتھ ہالیلویاہ کا نعرہ لگاتے ہوئے کہا، واہ میرے خدایا، تیری بھی عجیب شان ہے۔ تو اپنے بندوں پر اپنی رحمت کو جاری کرنے کے لئے شیطان کوبھی استعمال کرنا جانتا ہے۔