باب چہارم
بائبل مقدس میں سے
Valentine’s Day سے ملتی جلتی مثالیں
باب چہارم
بائبل مقدس میں سے Valentine’s Day سے ملتی جلتی مثالیںآپ یقیناً میرے ساتھ اتفاق کریں گے کہ آج Valentine’s Day کے نام پر بدکاری نقطۂ عروج کو چھو رہی ہے ۔ Valentine’s Day سے کئی ایسی کہانیاں جنم لیتی ہیں جو سال بھر ہی نہیں بلکہ عمر بھر کے لئے زندگیوں اور خاندانوں کو شرمندۂ حال کر دیتی ہیں۔ میں اور آپ ان سے اچھی طرح واقف ہیں۔ آئیے ذرا بائبل مقدس میں سے چند ایسی مثالیں دیکھیں اور میں ان کہانیوں کو اپنی نوجوان بہنوں اور بھائیوں کے سمجھنے کے لئے خاص طور پر Valentine’s Day کے حوالے سے پیش کرنے کی سعی کر رہا ہوں۔
۱۔ یعقوب کی بیٹی دینہؔ اور سکمؔ (پیدائش ۳۴ باب) ۔ لڑکیوں کے لئے ایک سبق آموز کہانی ۔کلام مقدس میں بزرگ یعقوبؔ کی اکلوتی بیٹی کا ذکر ملتا ہے جس کا نام دینہ ؔتھا۔ ایک دن وہ ہماری آج کل کی مسیحی لڑکیوں کی طرح ملازمت کے سلسلہ میں یا محض سیر کی غرض سے گھر سے اکیلی باہر نکلی۔ اس کی نیت اچھی تھی کیونکہ کلام بیان کرتا ہے کہ وہ ’’اس ملک کی لڑکیوں کو دیکھنے کو باہر گئی‘‘(آیت ۱)۔ وہ باہر نکلی اور چاہتی تھی کہ اس نئے ملک کی لڑکیوں کے رہن سہن، چال ڈھال ، طور طریقوں (فیشن) کو دیکھے بھالے کیونکہ شاید وہ بھی ہماری آج کی بیشتر لڑکیوں کی طرح یہ کہتی اور سوچتی ہوگی کہ ’’جیسا دیس ویسا بھیس‘‘ یا ’’فیشن کرنا ہی تو آج کل کا فیشن ہے یا فیشن کے بغیر زندگی کا کیا مزہ!‘‘ وہ خدا سے بھی پیار کرتی ہوگی کیونکہ آخر کو وہ یعقوبؔ کی بیٹی تھی۔ چلتے چلتے وہ شہر میں آ نکلی اور وہاں اسے اس شہر کی لڑکیاں تو شاید ملیں کہ نہیں البتہ اس شہر کے امیر حوی حمورؔ کے بیٹے سکم ؔنے اسے تاڑ لیا کہ یہ خوبصورت اجنبی لڑکی اس شہر میں نووارد ہے ۔ اس نے اس کو گھیر لیا اور یقیناً پوچھا ہوگا کہ کہاں سے آئی ہو اور کہاں کو جاتی ہووغیرہ وغیرہ۔ بات دور تک نکل گئی ہوگی اور ایک دوسرے کے فون نمبر لے لئے ہونگے ، ڈیٹ پر جانا شروع ہو گیا ہوگا کیونکہ لکھا ہے کہ اس غیر قوم کے لڑکے نے اپنی میٹھی اور چکنی چپڑی باتوں (فون کال، ایس ایم ایس) سے اسے ورغلا لیا اور پہلی ملاقات میں ہی اسے پھانس لیا جسے ہم آج کے دور میں ’’پہلی نظر کی محبت‘‘ (Love at first sight)کہتے ہیں۔ آخر سکمؔ نے اسے کہہ ہی ڈالا ہوگا کہ ‘‘میری ویلنٹائن بنو گی؟’’ لڑکا بھی خوبصورت اور امیر زادہ تھا اسلئے دینہؔ بھی ہماری آج کی لڑکیوں کی طرح اس کے غیر قوم ہونے کی اصلیت اور اپنے خاندانی مقام اور عزت و آبرو کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنا دل ہار گئی ۔ کیونکہ آیات میں حالات کو پڑھنے سے خوب معلوم ہوتا ہے کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بج رہی تھی بلکہ دینہؔ بھی برابر کی شریک تھی کیونکہ اطمینان سے بیٹھی اس نامختون، اجنبی اور غیر قوم سے تعلق رکھنے والے مرد کی میٹھی میٹھی باتیں سنتی رہی۔ نہ اسے اپنے بزرگ باپ یعقوب کی عزت کا خیال رہا اور نہ اپنے غیرت مند بھائیوں کی غیرت یاد رہی اور ہولناک انجام آپ کے سامنے ہے۔ زناکاری جیسا مکروہ فعل سرزد کر بیٹھی اور عمر بھر کے لئے احساسِ گناہ کی خلش اور اپنے خاندان بھر میں شرمندگی اس کا مقدر بن گئی اور اس کے بعد وہاں ایسے قتلِ عام اور خونریزی کا ذکر ملتا ہے کہ خدا کی پناہ! مسیحی بہنو، بیٹیو! ہوش میں آؤ!!!
آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح یعقوبؔ جیسے بزرگ کی جواں سال بیٹی نے اپنے باپ کے منہ پر ایسی کالخ مل دی کہ رہتی دنیا تک اس کا ذکر ہوتا رہے گا۔ ہوا یوں کہ اس غیر قوم سکم ؔنے اپنے باپ سے کہا کہ مجھے یہ لڑکی دینہ بہت پسندآئی ہے اسلئے میرا اس سے بیاہ کرا دے۔ چنانچہ دونوں طرف بات چلی اورآخر کار دینہ کی سکم کے ساتھ شادی ہوگئی۔ دینہ کے بھائیوں کو یہ رشتہ منظور نہیں تھا کیونکہ سکمؔ شادی سے پہلے ہی دینہؔ کی عصمت تار تار کر چکا تھا لیکن اپنے باپ کی بات کو قائم رکھنے کے لئے انھوں نے ایک دو دن تک اس بات کو برداشت کیا اور اس کے بعد دینہؔ کے بھائیوں نے سکمؔ کے خاندان پر ہلہ بول کر سب کو موت کے گھات اتار دیا یوں بہن کی ذرا سی لاپروائی اور آزادی نے دونوں خاندانوں کے بیچ میں بڑی دشمنی پیدا کردی۔
یہاں پر دینہؔ کے باپ یعقوبؔ اوراس کے بھائیوں کی غفلت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ غیرت مند بھائیوں کی غیرت اس وقت کیوں نہ جاگی جب ان کی جوان بہن نے گھر سے باہر قدم نکالا تھا؟ اتنا کچھ ہو جانے کے بعد جب غیرت جاگی بھی تو اپنی بہن کی ٹانگیں توڑنے کی بجائے دوسروں کا مار مار کر بھرکس نکال دیا بلکہ ایک بڑا قتلِ عام کیا۔ یہ سراسر زیادتی ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ آج کل کے بھائیوں میں دینہ ؔکے بھائیوں جیسی غیرت تو ہو سکتی ہے لیکن اتنا بڑا انتقام لینے کی ہمت نہیں ہوتی۔ اسلئے آج کے دور میں ایسے بھائی بیچارے مجبوری کے عالم میں اپنی زبانیں کاٹنے یا منہ چھپانے کے سوا کچھ کر نہیں پاتے۔
ان جھوٹی محبتوں سے شرمندگی اور رسوائی کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ آج ہمارے معاشرے کی کتنی ہی نوجوان بیٹیاں اس ہوس کی بھینٹ چڑھ گئی ہیں۔ شیطان نے آج عورت کی عزت، عصمت اور مقام کو ارزاں و نیلام کر دیا ہے۔ مرد تو پردے میں ہے مگر شہوت پرستی کے اس عفریت نے عورت کو اشتہاروں، بل بورڈز، لیبلز اور بازاروں میں نیم برہنہ کر کے رسوا کر دیا ہے۔ اس میں آج کی عورت کا بھی پورا پورا قصور ہے جو ہر بدلتے فیشن کی دلدادہ ہے۔ ٹی وی فلموں کی اداکاراؤں کی نقل کرنے والی، اپنے چہرے پر تہہ در تہہ کی لیپا پوتی کر کے خوبصورت نظر آنے والی ، ننگے بازوؤں کی قمیضیں اور سر سے دوپٹے (خاندان کی عزت) اتار کر گھومنے والی ہماری ہی بہنوں بیٹیوں نے ہماری عزت کو معاشرے کی جوتی کی نوک پر رکھ دیا ہے۔ معزز ماں باپ کے سامنے دھڑلے اور ڈھٹائی کے ساتھ موبائل فون پر کالیں اور تیزی کے ساتھ موبائل کے ڈائل پر انگلیاں نچاتے ہوئے ایس ایم ایس اور واٹس ایپ پر وائس چیٹنگ کرنے والی، غیروں کے ساتھ دوستی رکھنے والی، قوم کی بیٹیاں اسی دینہ کے نقشِ قدم پر رواں دواں ہیں۔ میری قوم کی بیٹیو، والدین اور غیرت مند بھائیو! ابھی ہوش میں آنے کی ضرورت ہے اس سے پیشتر کہ پانی سر سے گزر جائے! میری بہنو! دینہ نہیں بلکہ آسترؔ ملکہ، روت ؔاور مقدسہ مریم ؔبنو!۲۔ سمسونؔ اور دلیلہؔ کی کہانی (قضاۃ ۱۴ باب) ۔ لڑکوں کے لئے سبق آموز کہانی۔
ہائے سمسونؔ! خدا کا زبردست سورما!
مگر افسوس کہ دلیلہؔ کو ‘‘کیا تم میری ویلنٹائن بنو گی؟’’ کہنے کے چکر میں ہیرو سے زیرو ہو گیا۔ ایک زور آور ممسوح اور ماں کے پیٹ سے خدا کا نذیر مگر ہوس پرستی کی اسی روح نے اسے بھی دبوچ لیا۔ جب جب خد اکی روح اس پر نازل ہوتی تو وہ ہزاروں دشمنوں کو آن کی آن میں ڈھیر کر دیتا مگر خود اسی نام نہاد محبت و عشق کی روح کی گرفت میں آ کر وہ ایک دشمن قوم سے تعلق رکھنے والی دلیلہ نامی دوشیزہ کے آگے خود ڈھیر ہو گیا۔ اسے خدا نے بنی اسرائیل کو فلستیوں کے ہاتھوں سے رہائی کے لئے بھیجا تھا مگر وہ اپنی نادانیوں کے باعث خود دلیلہ کی زلفوں کا اسیر ہو گیا۔ ہائے افسوس! آزادی دلانے والا خود غلامی میں چلا گیا ، انھی فلستیوں نے اس کی آنکھیں نکال دیں اور وہ ان کے سامنے سورما سے صرف ‘‘سور’’ بن کر رہ گیا اور حریفوں نے اس کی طاقت کا ‘‘سرمہ’’ بنا ڈالا کیونکہ وہ دانستہ طور پر گناہ کی ایسی دلدل میں پھنس گیا جس سے نکلنا اس کے لئے ناممکن ہوچکا تھا۔ اپنی پسند کی شادی کے چکر میں بوڑھے ماں باپ کی نہ صرف حکم عدولی کی بلکہ ان کو رسوا بھی کیا اور خدا کے منصوبے سے بھی نکل گیا اور انجام عبرتناک ہوا۔
سبب کیا تھا؟ یہ کیسے ہوا کہ ناقابلِ تسخیر ہیرو خاک چاٹنے پر مجبور ہو گیا؟ یہ جناب آپ کی اسی نام نہاد جھوٹی محبت کا کمال ہے جس میں آج ہماری نوجوان نسل اندھا دھند بڑھتی جارہی ہے اور ہمارے خاندانوں کے خاندان اور کلیسیائیں سمسونوں سے بھرتی جا رہی ہیں۔ یہی تو سبب ہے کہ ہم اجتماعی قوت میں کمزور ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ ہمارے سورما خدا کے بھیجے اور بلائے ہوئے نوجوان، جنہیں خدا اپنی خدمت اور جلال کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہے ، آج اپنی اپنی دلیلاؤں کے زانوؤں پر سر دھرے اور آنکھیں موندھے پڑے ہیں۔ کئی جھوٹی محبتوں نے انھیں نہتا اور کمزور کر دیا ہے ایسا کہ خدا کا روح جو کسی وقت میں زور سے ان پر نازل ہوتا تھا ،اب ان سے جدا ہو چکا ہے اور وہ اس بات سے بے خبر خوابِ غفلت اور اپنی اس ہوس بھری محبت کے نشہ میں مست ہیں۔
اے مسیحی جوانو، بھائیو، بیٹو! خدارا جاگ جاؤ!!!
کب تک ان دلیلاؤں کے پیچھے یونہی بھاگتے رہو گے؟ اتنے عرصہ سے اپنا قیمتی وقت برباد کر رہے ہو، کیا ملا ہے؟ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ شیطان نے آپ کو اپنی کٹھ پتلی بنا رکھا ہے ؟ ذرا سوچو تو سہی! کیا آپ مسیحی غیرت کا مظاہرہ کر کے خود بھی اس آگ سے نکل سکتے اور دوسروں کو جھپٹ کر نکال سکتے ہیں؟ خدا آپ کو سمسون ؔ کی طرح دوبارہ زور دے کر بحال کر سکتا ہے مگر ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ آپ اپنی حالت کو پہچانیں ، اپنے گناہوں سے توبہ کر کے خدا کو پکاریں۔
سمسونؔ نہیں بلکہ یوسفؔ بنیں جس نے فوطیفار ؔکی بیوی کی کھلم کھلی آفر اور بدکاری جیسے گناہ کا موقع میسر ہونے کے باوجود اپنے آپ کو گناہ سے دور رکھا۔ اے خدا! میری نوجوان نسل کی آنکھوں کو کھول دے!
سبق: کیا یہ دونوں واقعات ہماری آج کی نسل کی غمازی نہیں کرتے؟اس کے علاوہ داؤدؔ اور سلیمان ؔجیسی کئی دیگر مثالیں بھی موجود ہیں مگر سمجھدار کے لئے اشارہ ہی کافی ہے!تیرے کلام دے موافق چلے رکھے اوہدے تے نگاہ