باب سوم
کیا Valentine’s Day ایک مسیحی تہوار ہے؟
باب سوم
کیا Valentine’s Day ایک مسیحی تہوار ہے؟یہ بات کم از کم میرے لئے اچنبھے سے کم نہیں کہ Valentine’s Day کا کوئی نشان ، کوئی رسم یا کوئی روایت بائبل مقدس اور ہمارے مسیحی ایمان سے قطعاً میل نہیں کھاتی تو بھی ہم مسیحی لوگ اندھا دھند ان کو للچائی ہو ئی نظروں سے دیکھتے، خریدتے اور دوسروں کو دینا پسند کرتے ہیں۔ درحقیقت ان کا تعلق واضح طور پر قدیم رومی دیوتاؤں کی شہوت انگیز رسومات سے ہے۔ آپ مجھے بتائیے کہ یہ ننگ دھڑنگے پردار کیوپڈز، تیر، دل ، پھول، دل نما چاکلیٹس اور دیگر ساری چیزیں جن کا اس دن سے تعلق ہے کیا بائبل کے مطابق ہیں؟ میں حیران ہوتا ہوں کہ یہ تہوار ایک مقدس بزرگ (St. Valentine) کے نام سے تو منسوب ہے مگر تقدیس اور پاکیزگی تو کہیں نظر نہیں آتی تو پھر یہ تہوار کیونکر مسیحی ہو سکتا ہے؟ مسیحیوں کی ایک ہی پہچان اور شناخت ہے ، مسیح کی صلیب جو کہ پاک ترین محبت کا اعلیٰ ترین نشان ہے۔
میں یہ کیوں کہتا ہوں؟ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ جب بھی ہم اپنے درمیان موجود ماڈرن، روشن خیال اور جدت پسند مسیحی طبقے کو کسی بھی تیزی سے پھیلتی ہوئی برائی سے بچانے کی کوشش کریں تو لوگ ہمیں قدامت پرست اور دقیانوسی کہہ کر لاپروائی کے ساتھ کنی کترانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ مسیحی ایمان پر قائم رہنے کے لئے ہم قدامت پرست اور دقیانوسی کہلائیں تو کچھ مضائقہ نہیں۔ کیا ہزاروں سال پرانی بائبل اور اس کی ایمان افروز تعلیمات پر عمل کرنے کی کوشش کرنا اور تعلیم دینا قدامت پرستی ہے؟ ایسی سوچ پر افسوس!
آج بہت سے لوگ Valentine’s Day جیسے فضول تہواروں اور ہوس و حرص کی چھاؤں میں پھلتے پھولتے نظریات میں سے مثبت پہلو دیکھنے اور دکھانے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے سمجھوتے کی زندگی گزار رہے ہیں اور وہ اس خود فریبی کا شکار ہیں کہ ہم کوئی بُرا کام نہیں کرتے بلکہ حقیقی ازدواجی یا خاندانی محبت کے اعتبار سے اس دن کو مناتے ہیں۔ ہم دنیاداروں کی مانند گناہ نہیں کرتے۔ مگر نہیں جانتے کہ یہ شیطان کا ایک بڑا فریب ہے۔ تھوڑا سا خمیر سارے گندھے ہوئے آٹے کو خمیر کر دیتا ہے۔ مزید یہ بھی کہ آپ کی ذرا سی اجازت سے ایک کمزور ایمان مسیحی گناہ میں گر سکتا ہے اور یوں آپ اس کے لئے ٹھوکر کا باعث بن سکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ زیادہ خطرے کی بات یہ ہے کہ آپ تو تھوڑی سی اجازت دینگے مگر دوسرا شخص اس جزوی اجازت کا پورا پورا فائدہ اٹھائے گا اور اس طرح یہ صورتحال زیادہ خطرناک ثابت ہوگی کم از کم اس دوسرے شخص کے لئے ۔ آئیے ہم دوسروں کی زندگیوں کو تباہی سے بچانے کے لئے تھوڑی سی اجازت دینے بھی گریز کریں۔ خدارا سمجھئے کہ رِسک کی کوئی گنجائش باقی نہیں ہے! میں یہ بات اسلئے بھی کہہ رہا ہوں کہ :- آج ہمارے مسیحی نوجوانوں کو سب سے زیادہ اسی چیز نے جکڑ رکھا ہے اور جسے دیکھو اسی نشے میں دھت نظر آتا ہے۔ گھروں سے بھاگ جانے، خود کشی کرنے، معصوم والدین اور پوری مسیحی قوم کو رسوا کرنے کے دلخراش واقعات سامنے آ رہے ہیں۔ ان حالات کے پیش نظر ہمیں ہر اس پہلو کی نفی کرنا ہوگی جو ہماری نوجوان نسل کی گمراہی کا سبب بن رہی ہے۔ بات محبت سے شروع ہوتی ہے مگر جنسی بے راہروی اور بدکاری کے اعمال کا ایک ایسا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو زندگیوں کو تباہ کر ڈالتا ہے۔
- مجھے لگتا ہے کہ یہ تہوار کسی کمرشل ذہنیت رکھنے والے ماہر کاروباری شخص کی ایجاد ہے کیونکہ اس کی ہر رسم میں آپ کو بازاری پن اور دکھاوا یعنی کمرشل ازم اور کیپیٹل ازم دکھائی دیتا ہے۔ ہزاروں روپے اور بیش قیمت وقت کا بڑا حصہ خواہ مخواہ جھوٹی رسومات کی نظر ہو جاتا ہے۔
- سب کچھ جھوٹا، نقلی اور ڈرامہ سا دکھائی دیتا ہے۔ جھوٹے وعدے، جھوٹی قسمیں، جھوٹے عہد و پیمان اور جھوٹے لارے لپے نوجوان نسل کو اخلاقی، جسمانی اور خاندانی طور پر تباہ کر رہے ہیں۔ ازدواجی و عائلی زندگی میں نفرت، جدائی، زخم در زخم اور شرمندگی کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔
- جو تہوار وقت کے ساتھ ساتھ رومی تہذیب میں ختم ہو گیا اسے دوبارہ زندہ کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی بوسیدہ اور بدبودار لاش کو دوبارہ نکال کر اسے بڑی خوشبوئیں لگا کر سجانے اور اس پر خوشیاں منانے کی کوشش کی جائے۔
- محبت کی ان جھوٹی غلام گردشوں اور دلدلوں میں پھنسے ہوئے مسیحی نوجوان دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو کر اسی میں غرق ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کے اذہان انھی سوچوں اور خیالوں میں مصروف رہ کر دیگر کاموں کی طرف سے ماؤف ہو کر رہ گئے ہیں۔ دن رات انھی چکروں میں چکر کھا کھا کر وہ اپنی شخصیت اور کردار کو داغدار کر رہے ہیں اور اپنی شخصی، خاندانی، کاروباری و تعلیمی اور کلیسیائی ذمہ داریوں سے باغی اور مفرور ہو رہے ہیں۔ یہ بڑی وجہ ہے کہ آج ہماری کلیسیاؤں میں یوتھ برائے نام رہ گئی ہے۔ اچھے رشتے نہیں ملتے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہماری مسیحی لڑکیاں اور لڑکے غیر مسیحی لوگوں کے ساتھ ناجائز رشتے قائم کر رہے ہیں اور یوں اپنے خاندان، مسیحی نام اور مسیحیت سے منحرف ہو رہے ہیں جو کہ ہم سب کے لئے مجموعی طور پر بڑی شرمندگی اور رسوائی کا باعث ہے۔
- دفتر وغیرہ جیسی جگہوں میں کام کرنے والے مسیحی جوان بہن بھائی گمراہی کا شکار ہو رہے ہیں۔ غیر شادی شدہ بہن بھائیوں کے علاوہ ہمارے شادی شدہ بہن بھائی بھی اپنے جیون ساتھی یا اپنی شریکِ حیات کو دھوکا دے رہے ہیں اور اپنے دفتری کولیگ دوستوں کے ہمراہ نامحرموں اور غیر مسیحیوں کے ساتھ اخلاق سوز phone calls اور sms وغیرہ کے تبادلے اور dating جیسے افعال ِبد کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
- میں خود بائبل مقدس پر دل سے ایمان رکھنے والا مسیحی ہوں۔ بائبل مقدس ہمیں اس بارے میں سیر حاصل تعلیم دیتی ہے کہ محبت کیا ہے اور ہمیں کس سے اور کس طرح محبت کرنی چاہئے۔ یاد رکھیں کہ بائبل مقدس دنیا کی اور دنیا سے محبت کی مکمل نفی کرتی ہے اور واضح طور پر لکھا ہے کہ ’’۔۔۔ کیا تمہیں نہیں معلوم کہ دنیا سے دوستی رکھنا خدا سے دشمنی ہے‘‘ (یعقوب ۴:۴)۔ یعنی دنیا کی محبت خدا سے نفرت اور دشمنی کے مترادف ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دنیا کی محبت دراصل خدا کی محبت کی ضد ہے۔ کیا ہم خدا سے دشمنی مول لے سکتے ہیں؟ ہمیں اپنی محبت میں بھی خبردار ہونے کی ضرورت ہے!
- میں نے جب سے یسوع مسیح کی بے مثال اور لازوال محبت کی حقیقت کو پہچانا ہے تو مجھے اس کی محبت کے سامنے دنیا کی ہر چیز ہیچ اور بیکار لگتی ہے۔ کیونکہ اس نے اپنی بے پناہ محبت سے مجھے اور آپ کو خرید لیا ہے۔ اب ہم اپنے نہیں کہ اپنی مرضی کی پالتے رہیں بلکہ ہماری محبت اب صرف اس کے لئے ہے جس نے ہمارے لئے قیمت ادا کی ہے۔ کیونکہ اب ہم اپنے نہیں بلکہ قیمت سے خریدے گئے ہیں (۱۔ کرنتھیوں ۶: ۲۹۔ ۳۰)