لفظ خُدا بولتے یا سنتے یا سوچتے ہی آپ کے ذہن میں کیا آتا ہے؟ خوف؟ جھرجھری؟ محبت کا احساس؟ پدرانہ شفقت کا احساس؟ کوئی تصویر؟ کوئی شکل ؟ کوئی صورت ؟
یہ سچ ہے کہ ہر شخص خُدا کے بارے میں ایک شخصی عقیدہ اور تصور رکھتا ہے جس کی بنیاد اُس کے شخصی تجربات، تعلیمات اور عقائد پر قائم ہوتی ہے اور ہونا بھی چاہئے کیونکہ بائبل کا خُدا ہر انسان کے ساتھ ایک شخصی تعلق قائم کرنا چاہتا ہے۔
یہ بھی سچ ہے کہ ہر انسان کی خُدا کے ساتھ اور ہر انسان کے ساتھ خُدا کی رفاقت اور رسائی کا طریقہ بھی الگ الگ ہوتا ہے۔
خُدا کے بارے میں بات کرتے ہوئے ہمیں بہت احتیاط سے کام لینا چاہئے کیونکہ کوئی بھی انسان یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ وہ خُدا کے بارے میں سب کچھ جانتا ہے۔
بائبل مقدس کی روشنی کے بغیر خُدا کی ذات اور اُس کے اوصاف کو بیان کرنے کی کوشش کرنے میں سہو کا احتمال رہتا ہے جیسے ایوب ۴۲: ۷ میں خُدا نے ایوب کے دوست الیفز تیمانیؔ سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ ’’میرا غضب تجھ پر اور تیرے دونوں دوستوں پر بھڑکا ہے کیونکہ تُم نے میری بابت وہ بات نہ کہی جو حق ہے جیسے میرے بندہ ایوب نے کہی۔‘‘
یعنی خُدا کی ذات کو صحیح معنوں میں وہی بیان کر سکتا ہے جسے خُدا کا عرفان اور معرفت خود خُدا کی طرف سے حاصل ہوئی ہو۔
اور مَیں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ یہ بھی ایک توفیق ہے جسے خُدا دے۔
ہماری اُردُو کی درسی کتاب کا پہلا سبق حمد ہوتا ہے جس کا مطلب ہے خُدا کی تعریف۔
بائبل مقدس کے متن کی ایک خوبصورتی یہ بھی ہے کہ اِس کا سب پہلا لفظ خُدا ہے یعنی پیدائش ۱: ۱ کا آغاز ’’خُدا‘‘ کے نام سے ہوتا ہے کیونکہ لکھا ہے کہ ’’خُدا نے ابتداء میں زمین و آسمان کو پیدا کیا‘‘۔
خُدا کو جاننے کے بہت سے ذرائع ہو سکتے ہیں مگر سب سے اعلیٰ، معتبر، قدیم اور مقدم ذریعہ بائبل مقدس ہے۔
اِسی مناسبت سے ہم بائبل مقدس کو خُدا کا ملہم کلام مانتے ہیں جس میں خُدا نے خود اپنی ذات کو مختلف انداز میں ظاہر اور بیان فرمایا ہے اور اُسی کی روشنی میں آج ہم اُس کے بارے میں سیکھنے کی کوشش کریں گے۔
ہم خُدا کے بارے میں اتنا ہی جان سکتے ہیں جتنا وہ اپنی ذات کو ہم پر آشکارا کرنا چاہتا ہے یا آشکار کرتا ہے۔
خُدا سے بات کرنے کا ذریعہ دُعا ہے اور خُدا کی بات سننے کا ذریعہ بائبل مقدس ہے۔
خُدا کے بارے میں غلط تصور پیش کرنا کفر ہے۔
خُدا کے بارے میں جاننے کا علم، علمِ الہٰیات (Theology) کہلاتا ہے۔