باب دوم
Valentine’s Day کیا ہے؟
وجہ تسمیہ اور تاریخ
باب دوم
Valentine’s Day کیا ہے؟Valentine ایک مذکر لاطینی نام ہے جس کا مطلب ہے ‘‘مضبوط، صحتمند’’۔ یہ یونانی نام Valentinusسے ماخوذ ہے ۔ تاریخ میں تقریباً ۵۰مقدس ہستیوں اور ۳ رومی شہنشاہوں کے نام Valentine تھے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ Valentine’s Day درحقیقت کیا ہے اور اس کے نام و تاریخ کا حدود اربعہ کیا ہے؟ Valentine’s Day کی مصدقہ تاریخ کے تعلق سے مختلف روایات مشہور ہیں۔
لوپر کیلیا، ایک یونانی تہوار:تاریخ کے مطابق، قدیم ہی سے فروری کا مہینہ ، الفت و چاہت اور زرخیزی و افزائش کی علامت سمجھا جاتا رہا ہے۔ قدیم رومی تہذیب میں ایک تہوار بنام لوپر کیلیا (Lupercalia)فروری کی ۱۳ تا ۱۵ تاریخوں میں منایا جاتا تھا۔ اس تہوار کا تعلق رومی دیوتا فانسؔ (Faunus) سے تھا جو کہ زرخیزی و افزائش کا دیوتا تھا۔ لوپر کیلیا کے تہوار کے موقع پر رقص و سرود کی محفلیں منعقد کی جاتی تھیں۔ یہ تہوار چند برسوں تک جاری رہا اور پانچویں صدی عیسوی میں ختم کر دیا گیا۔ مقدس ویلنٹائنؔ (شہید) کی یادگار:
مسیحیت کے آغاز پر بہت سے شہید ہونے والے مسیحیوں میں سے کئی شہدا کے نام Valentine تھے۔ ان شہدا کو ان کی تاریخِ شہادت کے اعتبار سے یاد کیا جاتا تھا اور ان کی یادگار ۱۴ یا ۱۵ فروری کو منائی جاتی تھی۔ انگریز شاعر جیفری چوسرؔ کی نظم اور محبت کرنے والے پرندے:
چودہویں صدی عیسوی میں جیفری ؔنے پہلی مرتبہ Valentine’s Day St. کو پیارو محبت کا دن قرار دیا۔ ہوا یوں کہ ۱۳۸۱ء میں جیفری ؔنے ایک نظم برطانوی شاہی جوڑے کی منگنی کی سالگرہ کے موقع پر لکھی۔ اس نظم کا ایک شعر بہت مقبول ہوا جس میں اس نے St. Valentine کا ذکر کرتے ہوئے لکھا کہ ‘‘آج کا یہ دن St. Valentine’s Day کی مانند خوبصورت ہے جس میں پرندے اپنے جوڑے بناتے ہیں ’’ ۔ اور یوں St. Valentine’s Day کو محبت کا دن کہا جانے لگا۔
ایک عام روایت:Valentine’s Day کی تاریخ اور آغاز کے متعلق مختلف روایات و کہانیاں مشہور ہیں۔ مگر یہ روایت طشتِ ازبام اور سب سے زیادہ مقبول ہے کہ Valentine’s Day کے تہوار کا نام اس St. Valentine کے نام پر رکھا گیا تھا جو کہ پادری تھا اور جسے رومی شہنشاہ کلاڈیس ؔدوم نے قریباً ۲۷۰ صدی عیسوی میں جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ روایت یہ ہے کہ شاہ کلاڈیسؔ دوم نے ملک میں جنگ چھڑ جانے کے باعث جوان مردوں کی شادی پر پابندی عائد کر دی اور حکم جاری کر دیا کہ تمام کنوارے جوان فوج میں بھرتی کئے جائیں۔ تاہم پادری St. Valentine نے چوری چھپے نکاح کرنے شروع کر دئیے۔ اسی اثنا میں وہ خود بھی ایک لڑکی کے عشق میں گرفتار ہو گیا۔ اس کی غیر قانونی سرگرمیوں کی اطلاع جب سپاہیوں کو دی گئی تو اسے قانون توڑنے کے جرم میں گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا۔ اتفاق سے اس کی محبوبہ اس جیلر کی بیٹی تھی جس کی نگرانی میں اسے قید کیا گیا تھا۔ یوں اس کے چاہنے والوں اور چاہنے والیوں کے نیک خواہشات یا مسائل سے متعلقہ خطوط اسے آسانی سے پہنچائے جاتے تھے اور وہ خود بھی ان تمام خطوط کے جواب دیتا تھا۔ وہ اپنی محبوبہ کے نام بھی خط لکھا کرتا تھا اور اپنے ہر خط کے آخر پر ہمیشہ دستخط کرتے ہوئے لکھتا تھا ’’فقط، تمہارا ویلنٹائن‘‘۔ بالآخر اس پر فردِ جرم عائد کر کے اسے مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے مذہب کو ترک کر دے اور انکار کرنے پر اسے شہید کر دیا گیا ۔ اس کے مداح اسے ’’شہیدِ محبت‘‘کہتے تھے۔
لگ بھگ ۱۴۰۰ صدی عیسوی میں ، فرانس کے شہر پیرس میں St. Valentine’s Day کے موقع پر ایک محبت کی عدالت کا آغاز ہوا جس میں دل سے متعلقہ معاملات و مقدمات جیسے کہ دوستی ، منگنی ، شادی ، طلاق، جبر اور ازدواجی پیچیدگیوں کا انصاف کیا جاتاتھا۔ پھر ایک فرانسیسی نواب زادے چارلسؔ کا خط شہرت اختیار کر گیا جس نے St. Valentine’s کی تقلید کرتے ہوئے ٹاور آف لندن کی جیل سے اپنی چہیتی بیوی کو خط لکھا جو کہ عین اسی طرز پر تھا۔ ۱۶۰۱ء میں مشہورِ زمانہ انگریز شاعر و معروف ڈرامہ نگار ولیم شیکسپیئر ؔنے اپنے معروف ڈرامے ‘‘ہیملٹ’’ میں بھی St. Valentine کا ذکر کرتے ہوئے آخری مصرع یہی لکھا تھا ‘‘تمہارا ویلنٹائن’’۔
۱۷۹۷ء میں ایک برطانوی اشاعت خانے نے اس دن کی مناسبت سے ایسے کارڈز تیار کرنے شروع کر دئیے جن پر نوجوان عاشقوں کے لئے عاشقانہ شعر اور ہیجان خیز الفاظ تحریر ہوتے تھے۔ رفتہ رفتہ کارڈز کے ساتھ پھول، چاکلیٹ اور دیگر قسم کے تحائف دینے کی ریت چل پڑی اور لوگوں نے Valentine’s Day کو باقاعدہ طورپر منانا شروع کر دیا۔ ۱۸۴۹ء تک یہ دن انگلینڈ اور امریکہ میں ایک قومی تہوار کی حیثیت اختیار کر چکا تھا۔ بیسویں صدی عیسوی میں یہ تہوار عالمی سطح پر منایا جانے لگا۔ آج حالت یہ ہے کہ اس تہوار کا جادو دنیا بھر کے مغرب زدہ نوجوانوں کے سر چڑھ کر بولتا ہے ۔ اس دن کو منانے کے لئے ان کی دیوانگی جنون کی حد تک بڑھ چکی ہے۔ اس دن کو ‘‘یومِ تجدیدِ محبت‘‘، ‘‘عید الحب’’ یا ‘‘عاشقوں کی عید’’ بھی کہا جاتا ہے۔ بہر کیف! آپ اس تہوار سے منسوب کسی بھی تاریخی واقعے کو اٹھا کر دیکھ لیں آپ کو پتہ چل جائے گا کہ اس کا ہمارے مسیحی ایمان اور بائبل مقدس کے ساتھ ہر گز کوئی تعلق نہیں۔
Valentine’s Day سے متعلق چند حیران کن حقائق- اگرچہ اس تہوار کا نام رومن کیتھولک ہستیوں سے منسلک کر کے عمومی طور پر اسے ایک مسیحی تہوار گردانا جاتا ہے مگر درحقیقت یہ تہوار کلیتاً ایک غیر مسیحی تہوار ہے جس کا کھرا قدیم یونانی شہوت پرستی کے دیوتاؤں اور دیومالائی داستانوں سے جا ملتا ہے۔
- اس تہوار کی روایتی علامتیں کیوپڈز، فاختہ، پریمی پرندے، گلاب کے پھول، دل اور تیر، سب رومی دیوتاؤں سے تعلق رکھتی ہیں۔ کیوپڈ، دیوی وینس کے بیٹے کا نام تھا اور گلاب کا پھول دیوی وینس کا محبوب ترین پھول تھا جو کہ محبت کی دیوی کہلاتی تھی۔
- لال اور گلابی رنگ اس دن کے مخصوص رنگ ہیں جو کہ اس دن کی مناسبت سے محبت و شہوت کو ظاہر کرتے ہیں۔
- اس دن کی سب سے بڑی یادگار اور محبت کا شاہکار ہندوستان میں موجود تاج محل کو سمجھا جاتا ہے جسے مغل بادشاہ شاہجہان نے اپنی چہیتی بیوی ممتاز محل کی یاد میں تعمیر کرایا تھا ۔ اس کا شمار دنیا کے سات عجائبات میں بھی ہوتا ہے۔
- پوری دنیا میں اگرچہ یہ تہوار نوجوان پریمی جوڑوں کا تہوار کہلاتا ہے لیکن خاندان بھر کے لوگ بھی اس تہوار میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔ میاں بیوی، بہن بھائی اور دیگر رشتے دار بھی اس تہوار کے جشن میں شریک ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ اظہارِمحبت کرتے ہیں۔ اس دن پر خصوصی کارڈز اور تحائف دیئے جاتے ہیں مگر سب سے زیادہ کارڈز اسکول ٹیچرز کو موصول ہوتے ہیں۔
- پھولوں کے تبادلے اور اپنے مخصوص رنگ کی مناسبت یہ تہوار دنیا کا سب سے بڑا تہوار ہے اور نوجوانوں کا مرغوب ترین ہے۔
- محبت جیسے پاکیزہ جذبے کے نام پر یہ تہوار پوری دنیا میں بدکاری، شہوت پرستی اور زناکاری کی علامت بن چکا ہے۔
- انٹر نیٹ پر آن لائن بھی لاکھوں کے حساب سے کارڈز بھیجے جاتے ہیں اور اس دن کی مناسبت سے کی جانے والی خریداری پر بھی خصوصی خرچ کیا جاتا ہے۔
- اس دن کے مشہور کلمات یہ ہیں: ‘‘کیا تم میری یا میرے ویلنٹائن بنو گی یا بنو گے؟’’ Be My Valentine! یا ’’کیا تم مجھ سے شادی کروگے؍ گی؟’’
- دنیا بھر میں منگنی یا شادی کے دن کا انتخاب کرتے وقت اکثر اس دن کی تاریخ مقرر کی جاتی ہے اور اس سے ملتی جلتی رسومات اپنائی جاتی ہیں۔
محبت کے اس دن کو دنیا بھر میں بڑے جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ فروری کا مہینہ شروع ہوتے ہی بازاروں میں کارڈز، لال رنگ کے ملبوسات، غبارے ، پھول ، دل نما تحائف کے ڈھیر لگ جاتے ہیں۔ اس دن کی عالمگیر روایت تو کارڈز ، دل نما چاکلیٹ، کیک یا تحائف کا تبادلہ ہے مگر اس کے علاوہ بھی بہت سی رسومات اس دن سے وابستہ ہیں۔
- اس دن لال رنگ کے ملبوسات و تحائف و خصوصی ترجیح دی جاتی ہے ۔
- دنیا بھر میں پریمی جوڑے اس دن خصوصی اہتمام کرتے ہیں اور ہوٹلوں، کلبوں، پارکوں یا خلوت گاہوں کا رخ کرتے ہیں جسے Date پر جانا کہتے ہیں۔
- اس دن ہر کوئی Happy Valentine’s Day کہنا ضروری سمجھتا ہے اور ماڈرن گھرانوں میں والدین، بہن بھائی اور سب رشتوں سے تعلق رکھنے والے قریبی لوگوں اور دوستوں کو بھی اس میں شریک کیا جاتا ہے۔
- دنیا بھر میں منگنی، شادی، ازدواجی رسومات کے لئے اس دن کو موزوں خیال کیا جاتا ہے اور اس دن بہتیرے جوڑے تشکیل پاتے ہیں۔
- کئی شہروں میں شادی ہالز کے نام Valentine Marriage Lawn رکھے ہوتے ہیں۔
- اس دن کی مناسبت سے نئے نئے گانے و نغمات، فلمیں اور ڈرامے ترتیب دئیے جاتے ہیں جو نوجوانوں میں ہیجان انگیز جذبات کو بھڑکاتے ہیں۔
- خصوصی محفلیں سجائی جاتی ہیں جن میں شراب، کباب اور شباب کا خصوصی اہتمام کیا جاتا ہے۔
- حکومتِ پاکستان کی جانب سے پابندی کے باوجود اس دن ساحل سمندر، پارکوں، ہوٹلوں اور کلبوں میں نوجوان پریمی جوڑے بڑی تعداد میں گشت کرتے دکھائی دیتے ہیں جنہوں نے سرخ ملبوسات پہن رکھے ہوتے ہیں اگرچہ ان میں نوبیاہتا شادی شدہ جوڑے بھی ہوتے ہیں مگر اکثریت بوائے فرینڈز اور گرل فرینڈز کی ہوتی ہے۔
- حالت یہ ہے کہ اس تہوار کے دیوانے اپنے ادھیڑ عمر یا بزرگ والدین و اقربا کو بھی مجبور کر کے اس واہیات رسم کے پابند بنانے کی سعی کرتے نظر آتے ہیں حالانکہ ان بیچاروں نے اپنی جوانی میں ایسی کوئی رسم کبھی دیکھی نہ منائی مگر آج اپنی نوجوان نسل کے ہاتھوں مجبور ہو جاتے ہیں۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ یہ تہوار نہ صرف ہمارے گھروں بلکہ گرجا گھروں کے اندر بھی پہنچ گیا ہے۔ لوگ عبادات میں سرخ رنگ کے خصوصی ملبوسات زیب تن کرتے ہیں، مرد حضرات کو بھی سرخ بھڑکیلے رنگ کی شرٹوں یا ٹائیوں میں دیکھا جا سکتا ہے اور پھر ایسے نغمات و پیغامات بھی سننے کو ملتے ہیں جن میں Valentine’s Day کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ اس قدیم محبت و عشق کی داستانوں سے بھری تاریخ میں اس مکمل دنیوی تہوار کا ہماری روحانی زندگیوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ لال رنگ ویسے بھی خطرے کا نشان ہے اسلئے ہمیں اپنی کلیسیاؤں اور گھرانوں کو اس خطرے سے محفوظ رکھنے کے لئے ہر ممکن اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔