باب اول
ہماری نوجوان نسل اور ویلنٹائنز ڈے

آج کی نوجوان نسل بلاشبہ اکیسویں صدی کی جدید نسل ہے جسے ایک سے بڑھ کر ایک جدید ترین سہولیات بآسانی میسر ہیں خصوصاً کیبل زدہ ٹی وی، موبائل فون، ٹیبلٹ، لیپ ٹاپ اور انٹر نیٹ وغیرہ کے بغیر تو ان کا گزارا محال ہے۔ ہمارا معاشرہ اب برائے نام مشرقی معاشرہ ہوتا جا رہا ہے کیونکہ روایتوں سے لے کر تہواروں تک سب کچھ مغربی رنگ میں تیزی سے ڈھلتا جا رہا ہے۔ ایسے میں نوجوان نسل بڑی سرعت کے ساتھ ان اخلاق سوز مشاغل کا شکار ہو رہی ہے جن کا آغاز مغربی معاشروں سے ہوا اور اہلِ مغرب کو تباہ کرنے کے بعد وہی مشاغل اب ہمارے معاشرے میں بھی اپنی جڑی گہری کرچکے ہیں۔ ان ہی تباہ کن مشاغل میں سے ایک یہ Valentine’s Day ہے جس کی انفرادی و کلیسیائی و خاندانی شر انگیزیوں اور تباہ کاریوں کو منظر عام پر لانے ، اس کو غیر مسیحی ثابت کرنے اور اپنی نوجوان نسل کو خبردار کرنے کے لئے میں نے ایک بار پھر قلم اٹھایا ہے تاکہ اس دن سے متعلق معلومات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اٹھنے والے کئی سوالات کا بھی مفصل جواب دیا جائے کہ Valentine’s Day کی تاریخ کیا ہے ؟ بائبل مقدس ہمیں اس بارے میں کیا سکھاتی ہے ؟ نیز یہ بھی کہ کیا ہم مسیحیوں کو یہ تہوار منانا چاہئے یا نہیں؟ اگرچہ اس پر کافی کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے تو بھی مجھے یقین ہے کہ اگر آپ اس کتابچے کو کشادہ دلی اور ترتیب کے ساتھ آخر تک پڑھیں گے تو آپ کو متعدد مقامات پر ایسی باتیں ضرور ملیں گی جو آپ نے پہلے کبھی پڑھی نہ سنی ہونگی!

مقصودِ کاوش یہ ہے کہ ہر ایماندار مسیحی دنیا کی ہر طرح کی جھوٹی محبتوں کا انکار کر کے مسیح کی سچی ، پاکیزہ اور لازوال محبت سے سر شار ہو کراپنی زندگی کو بائبل مقدس کے مطابق بسر کرے، اپنے دامن کو ایسی آلودگیوں سے پاک رکھے اور سنجیدگی کے ساتھ خدا ، کلام ، دعا اور پرستش و ستائش میں دل لگائے۔ مسیح کے دکھوں پر نظر کرے اور ہر روز مسیح کے ساتھ اپنی الہٰی محبت کا عملی اعادہ کرے۔

نوٹ : میرا ہدف صرف ہر سال ۱۴ فروری کو منایا جانے والا یہ کمرشل تہوار نہیں بلکہ اس کی روح، مقصد اور تباہی ہے جس نے ہماری نوجوان مسیحی نسل میں اخلاقی اور روحانی تنزلی کا بیج بویا اور من حیث القوم ہماری مسیحی اخلاقیات کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ کیونکہ میں یقین کی حد تک یہ سمجھتا ہوں کہ ہماری مسیحی یوتھ ، ہماری قوم میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ یاد رہے کہ میں اپنی معلومات ، نظریات اور تجاویز کو جذبۂ نیک نیتی کے تحت خالصتاً مسیحی نقطۂ نظر سے پیش کر رہا ہوں۔
مسیحی قوم کے نوجوانو!

میں مسیح کا ادنیٰ خادم اور مسیح میں آپ کا بھائی ہونے کے ناطے ، خداوند کے خوف کی یاد دلا کر آپ سے التماس کرتا ہوں کہ خدارا! سنبھل جاؤ اور ان زنجیروں کو توڑ ڈالو! آپ مسیح کے سورما ہیں اور کوئی ابلیسی پھندہ یا زنجیر آپ کو اس کا اسیر نہیں بنا سکتی۔ مسیح نے آپ کو آزاد کیا ہے اب دوبارہ غلامی کے جوئے میں نہ جتو۔ ابلیس نے جوانی کے ان دنوں میں آپ کو اپنا مطیع اور فرمانبردار بنانے کے لئے ایسی ایسی بدروحیں آپ کے پیچھے چھوڑ رکھی ہیں جو آپ کو ایسی گھنونی حرکتیں کرانے پر مجبور کرتی ہیں تاکہ مسیح اور آپ کا مسیحی نام بدنام اور آپ کی جوانی برباد ہوتی رہے۔ ضرورت یہ تھی کہ آج ہمارے گھرانوں اور کلیسیاؤں میں موسیٰؔ، یشو، آسترؔ، روت ؔ، داؤدؔ، دانی ایل ؔ، مریمؔ، پطرسؔ، ستفنسؔ اور پولسؔ ہوتے مگر ہمارے پاس سمسونؔ، دلیلہؔ، یہوداہ اسکر یوتی ؔ، حننیاہ ؔاور سفیرہ ؔکی بھرمار ہے مگر ۔۔۔

مگر میرا یہ ایمان ہے کہ آپ سچے مسیحی اور مسیح کے جانثار ، جانباز اور وفادار سپاہی ہیں! آپ، آپ کے خاندان اور پوری مسیحی قوم کی عزت و آبرو اسی میں ہے کہ آپ ان نفرت انگیز کاموں سے باز ا ٓ جائیں! خدا جو آسمان سے آپ کو دیکھتا اور آپ کے دل کے حال سے خو ب واقف ہے ، آپ پر فخر کرنا چاہتا ہے۔ اپنا دل اُسے دے دیجئے!

خدا کے کلام میں پولس رسول کی آیت کچھ اس طرح ہے کہ :

‘‘پس اے بھائیو (اور بہنو!) میں خدا کی رحمتیں یاد دلا کر تم سے التماس کر تا ہوں کہ اپنے بدن ایسی قربانی ہونے کے لئے نذر کرو جو زندہ اور پاک اور خدا کو پسندیدہ ہو۔ یہی تمہاری معقول عبادت ہے۔ اور اس جہان کے ہمشکل نہ بنو بلکہ عقل نئی ہوجانے سے اپنی صورت بدلتے جاؤ تاکہ خدا کی نیک اور پسندیدہ اور کامل مرضی تجربہ سے معلوم کرتے رہو’’ (رومیوں ۱۲: ۱۔۲)۔