۱۔ ابتدائیہ: موضوعِ ہذا کا تعارف، اہمیت اور ضرورت
- خدا کی ذات کے مکاشفے کو کھولنا۔ کسی بھی خادم کے لئے اس سے بڑھ کر خوشی اور برکت کی اَور کیا بات کیا ہو سکتی ہے۔
- خدا کی ذات کا مطالعہ کرنا اور دوسروں کو اس کے بارے میں بتانا کہ ہمارا خدا کتنا بڑا ہے۔
- اپنے بچوں اور خاص طور پر اپنی نوجوان نسل کو بتانا اور تعلیم دینا کہ ہم کس خدا کی عبادت کرتے ہیں اور ہمارا خدا کون ہے۔
- ہم سب جانتے ہیں کہ یہ برگشتگی ، گمراہی اور بے راہروی کا دَور ہے جس میں اپنے ایمان پر قائم رہنا ہر گزرتے دِن کے ساتھ مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے ۔ اِس کے اَور بھی کئی اسباب ہو سکتے ہیں مگر سب سے بڑی وجہ دنیا داری سے لگاؤ اور ایسے مشاغل میں زیادہ دلچسپی کارجحان جن کا روحانیت سے کوئی تعلق نہیں۔ اِس لئے اِس موضوع پر ہر دَور میں بات کرنا بے حد ضروری ہوتا ہے خاص طور پر آج کے زمانے میں تو اِس موضوع پر بات کرنا بہت زیادہ ضروری ہو گیا ہے۔
- اِس کی اَور وجہ خُدا کے وجود سے انکار یعنی الحاد یا تشکیکیت میں روز افزوں اضافہ ہے۔
- خُدا پر ایمان رکھنے والے (theist) یعنی ایمان والے یا ایماندار کہا جاتا ہے اور دُنیا میں اِن کی تعداد سب سے زیادہ ہے،
- خُدا پر ایمان نہ رکھنے والے (atheist) جنہیں ملحد یا دہرئیے کہا جاتا ہے اور دُنیا میں اِن کی تعداد بہت کم ہے مگر برگشتگی اور گمراہی میں روزافزوں اضافے کی بنا پر اِن کی تعداد میں بھی بڑی تیزی کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہا ہے،
- تیسری قسم کے لوگ ہیں متشککین (agnostics) جو گومگو کی حالت میں ہیں یعنی وہ پورے یقین سے کچھ بھی نہیں کہہ سکتے اِنہیں لا ادری بھی کہا جاتا ہے۔
خُدا پر ایمان رکھنے والوں کو ہماری طرف سے مبارکباد ، شاباش اور دعائے خیر۔ یوں تو یہ ویڈیو اِن تینوں انسانوں کی اِن تینوں انواع و اقسام سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لئے ہے مگر ہمارا سب سے بڑا اور اصل ہدف متشککین ہیں تاکہ کسی طرح اُنہیں گمراہی کا شکار ہونے سے بچایا جائے کیونکہ خُدا کے وجود کا انکار صرف اِس دُنیا تک کا معاملہ نہیں بلکہ اِس کا تعلق موت کے بعد کی زندگی یعنی آخرت سے بھی ہے۔ یہاں تو جیسے تیسے گزر جائے گی لیکن وہاں خُدا کو مانے بغیر نہیں چلے گی۔
- monotheism یعنی ایک خُدا پر ایمان رکھنا۔
- polytheism یعنی ایک سے زیادہ خداؤں، دیوی دیوتاؤں یا معبودوں پر ایمان رکھنا۔
بائبل مقدس خدائے واحد پر ایمان کی تعلیم دیتی ہے جس کی بنا پر مسیحیت کو دینِ توحید کہا جاتا ہے۔
تاہم آج کے دَور کا ایک مسئلہ یہ بھی مذاہب، عقائد اور نظریات و تعلیمات کی بھرمار میں حقیقی خُدا کو تلاش کرنا واقعی بے حد مشکل ہو چکا ہے۔ جب کسی شخص کو خُدا کی سمجھ نہیں آتی تو وہ یا تو خُدا کے وجود سے انکاری ہو جاتا ہے اور یا پھر شک میں مبتلا ہو کر تشکیکیت (agnosticism) کی راہ پر چل نکلتا ہے۔
مگر ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ خدا کے وجود سے انکار کو ثابت کرنا خُدا کے وجود کو ثابت کرنے سے زیادہ مشکل ہے۔ کیونکہ پوری کائنات میں وجودِ خُدا کے بے شمار ثبوت کھلی آنکھوں سے دیکھے جا سکتے ہیں۔ بس اِس کے لئے آپ کی آنکھوں، ذہن اور دِل کا کھلا ہونا ضروری ہے۔ خُدا کے وجود کو ثابت کرنے کے لئے تاریخ یا خلا کے بلیک ہولز میں جانے یا بگ بینگ جیسی بے تُکی اور بے ایمانی باتیں دریافت کرنے کی قطعاً ضرورت نہیں کیونکہ خُدا کی ذات وہ ہے جسے ایمان کے بغیر جانا اور سمجھا ہی نہیں جا سکتا۔ خدا کے وجود کو دیکھنے کے لئے ایمان کی آنکھ، اعتقاد کی حس اور یقین کا لمس درکار ہوتا ہے۔ عام طو ر پر کہا جاتا ہے کہ خدا تو ہماری شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہےجس کا مطلب یہ ہے کہ خُدا کی ذات کو جاننے اور سمجھنے کا سب سے بڑا ثبوت انسان خود ہے ۔ انسانی جسم بلاشبہ خُدا کا شاہکار ہے جس کی ہر ایک پرت اور جہت خُدا کی قدرت کو ظاہر کرتی ہے۔ مَیں تو یہ کہوں گا کہ اگر آپ محسوس کریں تو آپ کی ہر آتی جاتی سانس گویا خُدا کی مالا جپ رہی ہے۔ ذرا محسوس کیجئے، خُدا خُدا۔
مَیں سمجھتا ہوں کہ خُدا کو جاننا بھی ایک توفیق ہے جو ہر کسی کو حاصل نہیں ہوتی۔ البتہ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ اٹل ہے کہ انسان ازل ہی سے خُدا کے بارے میں سچائی کا متلاشی رہا ہے اور تاریخ شاہد ہے کہ خُدا کو جاننے کا سب سے بڑا، قدیم اور مستند و معتبر ذریعہ بائبل مقدس ہے۔ اِس ضمن میں، اگرچہ پوری گفتگو میں ہم علمی، فلسفی، استدلالی اور عمومی حقائق بھی شامل کریں گے البتہ ہماری گفتگو کا مجموعی حصہ بائبل مقدس کے پیرائے اور پسِ منظر میں ہی بیان اور پیش کیا جائے گا۔ پھر ایک اَور نقطہ اِس حوالے سے بہت اہم ہے کہ خدا کی ذات کے مکاشفے میں ہماری اپنی ذات کا مکاشفہ پوشیدہ ہے: میں کون ہوں؟ میں کہاں سے آیا ہوں؟ میری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ اور مرنے کے بعد میں کہاں جاؤں گا؟