مقصدِ تحریر

لگ بھگ ایک ڈیڑھ ماہ قبل ہم نے کرسمس کا بابرکت تہوار بڑی دھوم دھام سے منا یا ہے اور میراایمان ہے کہ ہم سب نے انفرادی اور اجتماعی طور پر شادمانی ، برکت اور الہٰی محبت کا ایسا بے مثال اور لازوال تجربہ حاصل کیا ہوگا جس کے اثرات و ثمرات ابھی مدھم نہیں پڑے اور نہ ہی پڑنے چاہئیں۔ پوری دنیامیں یوحنا ۳: ۱۶ کی سب سے زیادہ منادی کی گئی جو کہ پوری بائبل مقدس کی مرکزی و کلیدی آیت مانی جاتی ہے کیونکہ اس کا پیغام الہٰی محبت کا پیغام ہے یعنی یہ کہ ‘‘خدا نے دنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اس نے اپنا اکلوتا بیٹا بخش دیا تاکہ جو کوئی اس پرایمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زندگی پائے’’۔ مگر اب فروری کا مہینہ شروع ہونے کی دیر ہے کہ ہمارے اردگرد وہی مسیحی ایماندار جو ماہِ دسمبر میں تو نت نئے و جدید ملبوسات زیب تن کئے ہوئے مسیح کی محبت کے گن گاتے پھر رہے تھے ، آج ۱۴ فروری کو Valentine’s Day منانے کی تیاریوں میں مشغول ہیں بلکہ میں یہ کہنے میں عار نہیں سمجھتا کہ ان میں سے بیشتر مسیحی ایماندار لوگ ، اس غیر مسیحی تہوار پر مسیح سے ناواقف، دنیا دار اور گنہگار لوگوں سے کہیں زیادہ بڑھ کر اہتمام کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ ایک المیہ ہے !

یہ تحریر سپردِ قلم کرنے سے پہلے میں نے چند دوستوں کے ہمراہ مختلف مسیحی علاقوں کے نوجوانوں سے موضوع ہذا پر عمومی و خصوصی گفتگو کی اور ان کے گزشتہ تجربات اور آئندہ منصوبہ جات کی روشنی میں نہایت حیران کن معلومات حاصل کیں۔ مختصراً ، میں صرف یہ بتانا کافی سمجھتا ہوں کہ حالاتِ قوم نہایت ناگفتہ بہ اور شرمناک حد تک بگڑ چکے ہیں۔ شایدسطح ِآب تو زیادہ پریشان کن نظر نہیں آتی مگر گہرائی میں ایک طوفانِ حشر برپا ہے جو تیزی کے ساتھ ساحل کی جانب لپک رہا ہے اور وہ وقت دور نہیں جب بڑھتی ہوئی بدی اور بے راہرروی کا یہ سونامی تلاطم خیزلہروں کی صورت میں تمام حدیں پھلانگ کر اخلاقی ، روحانی اور خاندانی روایات کو بہا لے جائے گا اور ہم کفِ افسوس ملتے رہ جائیں گے ! شاید آپ کو یہ مبالغہ لگے مگر آئینے کا صرف اُلٹا رخ دیکھنے والے اگر جرأت کر کے اصل رخ پر آئیں تو انھیں معلوم ہو گا کہ حقیقت یہی ہے کیونکہ آج مسیحی بستیاں اور نوجوان زندگیاں سدوم ، عمورہ اور نینوہ بن چکی ہیں اور گمراہی ، بے راہروی، زناکاری اور نشے بازی نے ہماری شناخت تک مسخ کر دی ہے۔ مگر مقامِ افسوس یہ ہے کہ آج مسیحی یا خاندانی غیرت نام کی کوئی چیز ڈھونڈے نہیں ملتی۔ والدین اور جوان بہن بھائیوں کے سامنے فیشن کے نام پر جس اخلاقی گراوٹ اور برہنگی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے کسی ہاتھ میں اتنی اخلاقی طاقت و غیرت نہیں رہی کہ اسے روک سکے!

ہر طرف سدوم ، عمورہ اور نینوہ کی سی کیفیت بڑھتے دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے مگر اب ضرورت یہی ہے کہ ابرہام جیسے ایماندار لوگ ہر بستی میں سے اُٹھیں جو رات کے پہروں میں دستِ شفاعت بلند کرکے تیزی سے گناہ کی دلدل میں گرتی ہوئی نوجوان نسل کو بچا لیں۔ ایسے یوناہ ؔاور یوحنا ؔبرپا ہوں جو خدا کے بھیجے ہوئے جائیں اور گلیوں بازاروں میں پکاریں کہ توبہ کرو! توبہ کرو! توبہ کرو!