خاکساری کی اہمیت و فضیلت

1. خاکساری خُدا کے قہر کو ٹال دیتی ہے۔
ا۔ سلاطین ۲۱: ۲۷۔ ۲۹
’’جب اخی اب نے یہ باتیں سُنیں تو اپنے کپڑے پھاڑے اور اپنے تن پر ٹاٹ ڈالا اور روزہ رکھا اور ٹاٹ ہی میں لیٹنے اور دبے پاؤں چلنے لگا۔ تب خُداوند کا یہ کلام ایلیاہ تشبی پر نازل ہوا کہ تُو دیکھتا ہے کہ اخی اب میرے حضور کیسا خاکسار بن گیا ہے؟ پس چونکہ وہ میرے حضور خاکسار بن گیا ہے اِس لیے میں اُس کے ایام میں یہ بلا نازل نہیں کرونگا بلکہ اُس کے بیٹے کے ایام میں اُس کے گھرانے پر یہ بلا نازل کر دونگا۔‘‘
2. اگر ہم خاکسار بن کر دُعا کریں تو خُدا ہمارے گناہ کو معاف کر کے ہمارے ملک کو بحال کر دے گا۔
۲۔ تواریخ ۷: ۱۴۔
’’تب اگر میرے لوگ جو میرے نام سے کہلاتے ہیں خاکسار بن کر دُعا کریں اور میرے دیدار کے طالب ہوں اور اپنی بُری راہوں سے پھریں تو میں آسمان پر سے سُن کر اُن کا گناہ معاف کروں گا اور اُن کے مُلک کو بحال کروں گا۔‘‘
...

تکبر اور غرور کے حوالے سے چند سبق آموز کتابی مثالیں

1. برگد کا درخت اور چھوٹی جھاڑیاں۔
کہا جاتا ہے کہ ایک برگد کا درخت بہت اونچا تھا جس کی جڑوں کے پاس زمین پر کچھ ننھی منی جھاڑیاں اُگی ہوئی تھیں۔ برگد کا درخت اُن جھاڑیوں کو ہمیشہ اپنے سے بہت کمتر اور حقیر سمجھتا تھا اور اپنے حجم اور پھیلاؤ پر بہت اتراتا تھا۔ ایک دفعہ بہت زور کی آندھی چلی جس سے برگد کی بہت سی ٹہنیاں ٹوٹ گئی۔ برگد بہت پریشان ہوا اور جب اُس نے نیچے دیکھا تو جھاڑیاں جوں کی توں کھڑی تھیں کیونکہ وہ تیز ہوا کے جھونکوں کے سامنے جھک جاتی تھیں اور دوبارہ سیدھی کھڑی ہو جاتی تھیں ۔ تب جھاڑیوں نے کہا دیکھا ہم چھوٹی ٹھیک ہیں کیونکہ جب طوفان آتا ہے تو چونکہ ہمیں جھکنا آتا ہے اِس لئے ہم ٹوٹتی نہیں۔ پھر ایک روز ایسا زور کا طوفان آیا کہ پورا برگد ہی جڑ سے اُکھڑ گیا۔
2. ایک بارہ سنگھا جسے اپنے سینگوں پر بڑا فخر تھا۔
ایک بارہ سنگھا (stag) تھا جس کے سینگ بہت حسین، بڑے اور ایک تاج کی طرح اُس کے سر کے اوپر پھیلے ہوئے تھے۔ اُسے اپنے خوبصورت سینگوں پر بڑا ناز تھا۔ وہ اکثر جھیل میں پانی پیتے ہوئے اپنے سینگوں کا عکس دیکھ کر بہت خوش ہُوا کرتا تھا اور دوسری طرف جونہی اُس کی نظر اپنے پیروں پر پڑتی جو بہت ہی بدنما اور بھدے دکھائی دیتے تھے تو اُس کی ساری خوشی کرکری ہو جاتی تھی۔ وہ اپنے پیروں کو اکثر کوستا رہتا تھا۔ ایک روز اِسی طرح وہ جھیل پر پانی پیتے ہوئے اپنے سینگوں پر فخر کرتے اور اپنے بدنما پیروں کا ماتم کرتے ہوئے اپنی سوچوں میں گم تھا تو اُسے اپنے پیچھے شکاری کُتوں کے بھونکنے اور برق رفتاری سے بھاگنے کی آواز سنائی دیں۔ اُس کی تو سٹی گم ہو گئی۔ اُس نے فوراً چھلانگ بھری اور فراٹے بھرتے ہوئے سرپٹ بھاگنا شروع کر دیا۔ اُس کے وہی بدنما اور بھدے پاؤں اُسے جان بچانے میں پوری پوری مدد کر رہے تھے جنہیں وہ بہت حقیر سمجھتا تھا۔ بھاگتے بھاگتے اُس کے تاج نما سینگ ایک جھاڑی میں اٹک گئے۔ لاکھ کوشش کے باوجود وہ اُن سینگوں کو جھاڑی سے چھڑا نہ پایا دوسری طرف اُس کے بدنما پاؤں اُسے بدستور کُتوں سے بچا کر لیجانے کے لئے پوری طرح آزاد اور تیار تھے۔ آن ہی آن میں شکاری کُتوں نے اُسے آ دبوچا اور جن سینگوں پر اُسے مان اور ناز تھا وہی اُس کے لئے جان کا پھندا بن گئے۔
3. مور کی مثال۔
ہم سب جانتے ہیں کہ مور دیکھنے میں کتنا خوبصورت اور حسین نظر آتا ہے خصوصاً جب وہ اپنے پروں کو نہایت شان کے ساتھ پھیلاتا اور اُن پر اتراتے ہوئے اٹھلا اٹھلا کر چلتا ہے۔ مگر کہا جاتا ہے کہ مور کے پاؤں بھی قدرت نے اُتنے ہی بھدے اور بدنما بنائے ہیں تاکہ اُنہیں دیکھ کر مور کی اکڑ فوں نکلتی رہے۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ مور جب اپنے پیروں کو دیکھتا ہے تو باقاعدہ روتا ہے۔
4. خوبصورت تتلی اور ہاتھی کا بچہ۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک خوبصورت تتلی اُڑتی ہوئی ہاتھی کے ایک بچے کے پاس آتی ہے اور اُس کے سامنے اپنے پر پھیلا پھیلا کر اُڑتی اور اُسے دکھاتی ہے کہ دیکھو مَیں کتنی خوبصورت ہوں جبکہ تم کتنے بے ڈول اور موٹے ہو۔ تمہارے کان، سونڈ، پیر اور پورا جسم کتنا عجیب ہے؟ تب ہی ہوا کا ایک تیز جھونکا آتا ہےا ور تتلی اُس کے دوش پر اُڑتی ہوئی ساتھ ہی درخت پر لگے ہوئے مکڑی کے جالے میں جا کر اٹک جاتی ہے اور مکڑی اُسے آناً فاناً دبوچ لیتی ہے۔
5. امیر تاجر اور غریب آدمی۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کسی گاؤں میں ایک تاجر رہتا تھا ۔ جو روزانہ پیدل شہر آتا اور پیدل ہی واپس چلا جاتا ۔ ایک دن شام کو بہت سخت بارش ہو رہی تھی ، اور اس نے سوچا آج میں بس کے ذریعے گھر واپس چلا جاتا ہوں۔ پھر وہ پیدل بس سٹاپ تک گیا لیکن بس میں بیٹھے تاجروں نے اسے بس میں بیٹھنے سے منع کر دیا ۔ اس نے کہا مجھے بس میں بیٹھنے باہر بارش ہو رہی ہے میں گھر کیسے جاؤں گا۔ اس نے ان کے آگے ہاتھ جوڑے ۔ انہوں نے خود پر بہت فخر محسوس کیا اور غرور کیا۔ ان تاجروں میں سے ایک تاجر نے اسے بس میں بیٹھنے کی اجازت دے دی۔ وہ ایک نیک آدمی تھا ۔ لیکن باقی تاجروں نے اسے بس میں بیٹھنے تو دے دیا لیکن اس سے کہا تم نیچے بیٹھ جاؤ۔ وہ غریب تاجر نیچے بیٹھ گیا۔آدھے راستے میں گاڑی کا ٹائر کیچڑ میں پھنس گیا۔ تاجروں نے کہا کہ یہ سب اس کی وجہ سے ہوا ہے۔ ایک تاجر نے کہا کہ سب لوگ باری باری اس پیڑ کے نیچے جائیں اور جو گناہ گار ہوگا اس پر بجلی گرے گی اور وہ جل کر راکھ ہوجائے گا۔ سب تاجر باری باری گئے اور صحیح سلامت واپس آگئے ۔ آخر میں ان دونوں کی بار ی تھی ۔ وہ دونوں پیڑ کے نیچے گئے تو زور سے بجلی کڑکی اور بس پر جاپڑی اور تمام تاجر جل کر راکھ ہوگئے ۔
6. خرگوش اور کچھوے کی کہانی۔
7. علامہ اقبال کی نظم پہاڑ اور گلہری۔
اِن سب کہانیوں سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہمارا خُدا غرور کو پسند نہیں کرتا بلکہ غرور کی سزا دیتا ہے۔ جس کی کئی مثالیں ہمیں بائبل مقدس سے بھی ملتی ہیں اور آگے چل کر ہم اُن کا ذکر بھی کریں گے۔

چند اشعار:

؎چھت کو بڑا غرور تھا چھت ہونے پر !
ایک منزل اور بنی اور چھت فرش ہوگیا
...
؎ زبر نہیں زیر بن
کل کو پیش بھی ہونا ہے
✪✪✪