حرفِ آغاز
ہمارے پیارے ملکِ پاکستان میں رائج الوقت کیلنڈر میں لگ بھگ سات مسیحی تہوار شامل ہیں جن میں کرسمس اور ایسٹر بنیادی حیثیت رکھتے ہیں مگر اسے ہماری اجتماعی بدبختی کہہ لیں یا بے لاگ مسیحی لبرل ازم کہ چند نوآموز قسم کے ناپاک اور ہوس و تفریح کی خاطر خود ساختہ قسم کے تہوار بھی سرعت کے ساتھ ہماری مسیحی معاشرت کا حصہ بنتے جا رہے ہیں جیسے کہ مدرز ڈے، فادرز ڈے، ہیلووین اور ویلنٹائنز ڈے وغیرہ۔ اکثر دوست اس با ت کو تسلیم بھی کرتے ہیں کہ یہ ہر گز مسیحی تہوار نہیں مگر یاد رکھیں کہ غیر مسیحی دنیا انھیں مسیحیوں سے ہی منسوب کرتی ہے جس کا سبب یہ ہے کہ ان غیر مسیحی تہواروں کا موجد مسیحی دنیا کا بے تاج بادشاہ مغربی معاشرہ ہے جہاں اکثریت نامی مسیحیوں کی ہے ۔ مگر یہ حقیقت سچ اور امرِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ان تہواروں کے لئے مسیحیت میں کوئی گنجائش نہیں ۔
کیا آپ جانتے ہیں کہ مغربی دنیا نے یہ ایام یا تہوار کیوں قائم کر رکھے ہیں؟ یاد رکھیں کہ مغرب بالخصوص امریکہ کی اس وقت حالت یہ ہے کہ وہاں اخلاقیات ، خاندانی ، روحانی و معاشرتی اقدار کا تقریباً جنازہ نکل چکا ہے اور حالتِ حیف یہ ہے کہ اخلاقیات کے اس متعفن لاشے پر رقص کرنے والے تو بہت ہیں لیکن ماتم کرنے والا شاید کوئی بھی نہیں ۔ دنیا بھر کا یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ معاشرہ سائنسی ایجادات اور جدید ترین سہولیات سے آراستہ و پیراستہ تو ہے (جس پر یقینا ً وہ داد و تحسین اور تعریف کے لائق ہیں اور ہمیں ان کی اس جدید ترقی کے اصولوں پر عمل کرتے ہوئے ان کی تقلید کرنی چاہئے ) مگر اس کی خاندانی و معاشرتی شکل اس قدر بگڑ چکی ہے کہ خدا کی پناہ! وہ دیدہ و دانستہ طور پر خوفناک حقائق سے نظریں چراتے ، اصلیت کو چھپاتے ہوئے اپنی تفریحات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر کرتے ہوئے ایسے غیر اخلاقی اور بائبل مقدس کے منافی تہواروں کی دلدل میں کچھ ایسے دھنس گئے ہیں کہ اب خود ان کے لئے بھی اس جال سے نکلنا محال ہو چکا ہے بلکہ وہ دن بدن مزید دھنستے اور پھنستے چلے جا رہے ہیں۔
دوم یہ بھی کہ ، اہلِ مغرب کو یہ ایّام ایجاد کرنے کی ضرورت بھی تھی کیونکہ وہ یا ان کے بچے ٹین ایج (teenage)میں ہی اپنے گھروں سے باغی اور فرار ہو کر اپنی من مرضی کی زندگیاں گزارتے ہیں۔ وہ کئی کئی مہینوں اور برسوں تک اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں سے الگ رہتے ہیں ۔ انھیں اپنے ماں باپ اور عزیزوں کو یاد رکھنے اور سال میں کم از کم ایک مرتبہ ان سے ملنے کے لئے کسی نہ کسی بہانے کی ضرورت رہتی ہے اور یہ بہانہ انھیں مختلف رشتے داروں کے نام سے مختلف دنوں کو منسوب کرنے اور ان دنوں کو منانے کی صورت میں مل جاتا ہے ۔ اس طرح انھیں اور ان کے دوستوں کو اس بات کا یقین دلایا جاتا ہے کہ ان کے بھی والدین موجود ہیں ، وہ حرام کی اولاد نہیں ۔ کیونکہ ان کی حرام قسم کی حرکات و سکنات کے بعد یہ ثابت کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ وہ غیر منکوحہ ازدواجی زندگیاں گزارتے اور ایسی ایسی نازیبا سرگرمیوں میں ملوث پائے جاتے ہیں کہ ان کا نام لینا تو درکنا ر ان کا تصور کرتے ہی دماغ میں حشر برپا ہو جاتا ہے ۔ اور اس پر طرہ یہ ہے کہ ان تمام مکروہات کو قانونی و عدالتی سرپرستی اور لائسنس حاصل ہے اور اس میں مداخلت یا خلل پیدا کرنے والے کو ‘‘ذاتی معاملات میں دراندازی کرنے والے’’ کا نام دے کر مجرم تصور کیا جاتا ہے چاہے وہ اس جوان بیٹے یا بیٹی کا ماں باپ ہی کیوں نہ ہو۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہاں ہر بالغ لڑکی اور لڑکے کو اپنی مرضی کا مالک قرار دے کر ہر قسم کی چھوٹ دے دی جاتی ہے ۔ آپ انھیں ڈانٹ نہیں سکتے، مار پیٹ نہیں کر سکتے، ان کے ساتھ اونچی آواز میں بات نہیں کر سکتے، ان سے اپنی مرضی کا کام نہیں کرا سکتے اور ان کی مرضی کے خلاف کوئی کام نہیں کر سکتے۔ اگر آپ نے ایسا کیا تو ان کے پاس حکومتی اداروں کے ٹیلی فون نمبرز موجود ہیں جن پر رابطہ کر کے وہ آپ کے خلاف شکایت درج کرا دیں گے اور وہ حکومتی ادارے آپ کے کسی عذر یا دلیل کو سنے بغیر آپ کو سزا دینگے خواہ آپ والدین ہی کیوں نہ ہو۔
تاہم خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہمارا معاشرہ ابھی تک ان کھلم کھلی مکروہات سے کسی حد تک محفوظ ہے لیکن آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ ان دنوں یہ ہوا یہاں ہمارے مشرقی معاشرے میں بھی چل پڑی ہے جس کی ایک زندہ مثال یہ ہے کہ اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طالب علموں کو ڈانٹنے پر لگائی جانے والی پابندی ہے۔ گھروں میں بھی والدین اپنے بچوں کو please, sorryجیسے الفاظ کہنے پر مجبور ہو چکے ہیں اور اولاد منہ زور ہوتی جا رہی ہے ۔ لیکن خطرے کی بات یہ ہے کہ اگر ہم اسی رفتار اور شوق سے اندھا دھند مغربی دنیا کی پیروی میں سرپٹ بھاگتے رہے تو وہ دن بھی دور نہیں ۔۔۔۔ (خدا ہمیں وہ دن دیکھنے سے بچائے!)