کیا ہم خُدا کی ذات کو حقیقی معنوں میں جان سکتے ہیں؟
یہ بات سچ ہے کہ خُدا کی ذات ایک وسیع و عریض موضوع ہے جس کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کسی ایک کتاب، ایک ویڈیو یا ایک نشست میں کبھی پورا نہیں کیا جا سکتا بلکہ حقیقت تو وہ مقولہ ہے جس کو ہم بچپن سے سنتے آ رہے ہیں کہ اگر اِس دُنیا کے سارے دریا، سمندر اور ندی نالے سیاہی یعنی انک اور سارے درخت قلم یعنی پین بن جائیں تو بھی خالق خُدا کی تعریف بیان نہیں کی جا سکتی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ خُدا کی ذاتِ اقدس ایک اتنا بڑا اور وسیع مضمون ہے کہ اِس کا مکمل احاطہ کرنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں کیونکہ جتنا خُدا بڑا ہے اُس کی ذات کے پہلو بھی اتنے ہی عمیق اور متعدد ہیں البتہ یہ حقیقت بھی اظہر من الشمس ہے کہ خُدا چاہتا ہے ہم اُس کی ذات کے مکاشفوں کا کھوج لگائیں، اُسے جانیں اور اُس کے ساتھ ایک شخصی تعلق قائم کریں۔
یہاں مَیں یہ بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ میری دانست میں زیادہ علم یا حکمت کا مطلب یہ نہیں کہ انسان خُدا کی ذات پر ہی سوال اُٹھانا شروع کر دے بلکہ زیادہ علم و دانش کا مطلب ہے انسان خُدا کے اتنا زیادہ قریب ہو جائے۔ علم کو ہتھیار بنا کر علم کے حقیقی ماخذ و منبع کے خلاف علمِ بغاوت بلند کر دینا سراسر نادانی اور قابلِ افسوس امر ہے ۔
اب ابتدائی سوال یہ ہے کہ کیا ہم حقیقی معنوں میں خُدا کو جان سکتے ہیں؟جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ خُدا کی ذات اِس کائنات کا سب سے بڑا بھید اور ایک ایسا سربستہ راز ہے جس کی کھوج لگانا اگرچہ کسی انسان کے اپنے بس کی بات نہیں تو بھی صدیوں سے انسان مختلف ذریعوں سے خُدا اور حقیقی خُدا کو جاننے کی جستجو میں مسلسل کوشاں ہے۔
ایوب ۱۱: ۷۔ ۸۔ کیا تُو تلاش سے خُدا کو پا سکتا ہے؟ کیا تُو قادرِ مُطلق کا بھید کمال کے ساتھ دریافت کر سکتا ہے؟ وہ آسمان کی طرح اُونچا ہے۔ تُو کیا کر سکتا ہے؟ وہ پاتال سے گہرا ہے۔ تُو کیا جان سکتا ہے؟
واعظ ۱۱: ۵۔ جَیسا تُو نہیں جانتا ہے کہ ہوا کی کیا راہ ہے اور حامِلہ کی رَحِم میں ہڈِّیاں کیوں کر بڑھتی ہیں وَیسا ہی تُو خُدا کے کاموں کو جو سب کُچھ کرتا ہے نہیں جانے گا۔یاد رکھئے گا، یہ پرانے عہد نامے کی باتیں ہیں کیونکہ تب خُدا کو جاننا یا پانا واقعی مشکل تھا مگر نئے عہد نامے کی تعلیم بالکل فرق ہے جہاں ہمیں بتایا گیا ہے کہ یسوعؔ مسیح کے دُنیا میں آنے سے خُدا کو جاننا ہمارے لئے بہت آسان ہو گیا ہے کیونکہ اُس نے دُنیا میں آ کر ببانگِ دُہل کہا تھا کہ
’’جس نے مجھے دیکھا اُس نے باپ (خُدا) کو دیکھا‘‘ (یوحنا ۱۴: ۹)۔
پھر روح القدس کی حضوری اور معموری نے اِس مشکل کو مزید آسان بنا دیا جس پر ہم آگے چل کر مزید بات کریں گے۔ چنانچہ، اگر ہم یہ جاننے چاہتے ہیں کہ ازروئے بائبل خُدا کو جاننے کے کون کون سے ذرائع ہیں تو بائبل مقدس ہمیں بتاتی ہے کہ ہم مظاہرِ تخلیق و فطرت ، خُدا کے کاموں، اپنے ضمیر کی آواز، فرشتوں، نبیوں اور خادموں، خُدا کے تحریری کلام یعنی بائبل مقدس ، یسوع مسیح اور روح القدس کے وسیلہ سے خُدا کو زیادہ گہرے طور پر جان سکتے ہیں۔ اِن میں سے چند اول الذکر کا شمار عام الہام میں ہوتا ہے جو سب انسانوں کو یکساں حاصل ہوتا ہے جبکہ آخر الذکر یعنی روح القدس کا شمار خاص الہام میں ہوتا ہے جو صرف روح القدس سے معمور ایمانداروں کو حاصل ہوتا ہے۔
اگرچہ اِن تمام ذرائع پرالگ الگ سے تفصیلی بات کی جا سکتی ہے مگر یہاں ہم صرف روح القدس کی معرفت پر بات کرتے ہیں جس کے بارے میں لکھا ہے:
۱۔ کرنتھیوں ۲: ۱۰۔ لیکن ہم پر خُدا نے اُن کو رُوح کے وسِیلہ سے ظاہِر کِیا کیونکہ رُوح سب باتیں بلکہ خُدا کی تَہہ کی باتیں بھی دریافت کر لیتا ہے۔
اِس کا مطلب یہ ہُوا کہ جب کوئی شخص روح القدس سے معمور ہوجاتا ہے تو اُسے خُدا کے خاص الہام کے ذریعہ سے معرفت حاصل ہونا شروع ہو جاتی ہے اور خُدا کا شکر ہے مَیں ایک روح القدس سے معمور خادم آپ سے اِس وقت مخاطب ہوں۔
پھر خُدا کو جاننے کا ایک اَور خاص ذریعہ ایمان ہے جس کے بارے میں بائبل مقدس فرماتی ہے کہ :
عبرانیوں ۱۱: ۳۔ ایمان ہی سے ہم معلوم کرتے ہیں کہ عالم خدا کے کہنے سے بنے ہیں۔ یہ نہیں کہ جو کچھ نظر آتا ہے ظاہری چیزوں سے بنا ہو۔
عبرانیوں ۱۱: ۶۔ اور بغَیر اِیمان کے اُس کو پسند آنا نامِمکِن ہے۔ اِس لِئے کہ خُدا کے پاس آنے والے کو اِیمان لانا چاہئے کہ وہ مَوجُود ہے اور اپنے طالِبوں کو بدلہ دیتا ہے۔
یہاں، مَیں سمجھتا ہوں کہ خُدا کو جاننا ہمارے لئے بڑے فخر اور خوشی کی بات ہے جیسے لوقا کی انجیل ہمیں بتاتی ہے کہ اِس حوالے سے یسوعؔ نے بڑی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا:
لوقا ۱۰: ۲۱۔ اسی گھڑی وہ روح القدس سے خوشی میں بھر گیا اور کہنے لگا اے باپ آسمان اور زمین کے خداوند! میں تیری حمد کرتا ہوں کہ تو نے یہ باتیں داناؤں اور عقلمندوں سے چھپائیں اور بچوں پر ظاہر کیں۔