باب نہم
دنیوی محبت کے مختلف اور جدید پھندے
اور ان سے بچاؤ کی چند تجاویز
باب نہم
دنیوی محبت کے مختلف اور جدید پھندے اور ان سے بچاؤ کی چند تجاویزمیں سالہا سال سے مسیحی نوجوان نسل کی موجودہ ناگفتہ بہ حالت تک پہنچنے کے ارتقائی عناصر اور عوامل کی کھوج لگانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ ہمیشہ سے اور آج جن جن عوامل نے میری مسیحی نوجوان نسل کو گمراہی ، بے راہ روی اور اخلاقی انحطاط کے اس دہانے پر لا کھڑا کیا ہے ان میں سے چند ایک عناصر کا مَیں یہاں خصوصی طور پر ذکر کرنا چاہتا ہوں جن کو ہماری مسیحی یوتھ کو اخلاقی طور پر تباہ کرنے میں سرِ فہرست شمار کیا جا سکتا ہے:
۱۔ ٹیلی ویژن ، کیبل اور فلمیں:آج کے جدید دور میں ٹی وی ہر گھر کی زینت ہے۔ کوئی گھر ٹی وی کے بغیر مکمل نہیں سمجھا جاتا ۔ کالے رنگ کا یہ ڈبہ اور پھر اس میں لگائی گئی ایک کالی تار جسے ہم اپنی آسانی اور روانی کے ساتھ کیبل کہتے ہیں ، دراصل یہیں سے گمراہی کا آغاز ہو رہا ہے۔ ٹی وی کی ایجاد یقیناً اچھی تھی اور اچھی ہے مگر آج اس کے استعمال سے کون واقف نہیں۔ آج کی نوجوان نسل اس کی پوری اور بری طرح شکار ہو چکی ہے۔
خصوصاً وہ بہنیں بیٹیاں جو گھروں سے باہر قدم نہیں رکھتیں اور ہمہ وقت گھر پہ رہتی ہے۔ اور وہ باہر قدم رکھیں بھی کیوں ؟ جناب آج گھر کے اندر کی دنیا باہر سے زیادہ رنگین ہے۔ صبح آنکھ کھلنے سے پہلے ہی رنگا رنگ پروگرام شروع ہو جاتے ہیں۔ ہمارے عیاش پرست اور روشن خیال ذہن بڑے شاطر اور چالاک ہیں اور نہ صرف اپنے آپ کو بلکہ خدا کو بھی دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ آپ انھیں یہ کہتے ہوئے سنیں گے کہ جنابِ والا، ہم لوگ صبح صبح گیتوں یا زبوروں کا چینل لگا تے ہیں۔ جی ہاں، بالکل ایسا ہی ہے لیکن صرف تب تک جب تک کام پر جانے والے بڑے ماں باپ یا بہن بھائی گھر پر ہوتے ہیں ، بلند آواز میں مسیحی گیت بجتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ دن کا آغاز خدا کے نام سے کر رہے ہیں۔ یہ اچھا تو ہے مگر بہت اچھا نہیں کیونکہ خود صبح صبح اٹھ کر پرستش کرنے ، دعا کرنے اور کلام پڑھنے کی ہمت نہیں پڑتی اور ٹی وی پر ریکارڈ شدہ گیت اور پروگرام دیکھ کر ایمان تازہ کر لیتے ہیں۔ (حالانکہ اس دوران بھی کئی افراد کے دل مچل رہے ہوتے ہیں کہ کب ابوجی کام پر نکلیں اور ہم چینل بدلیں!) اور پھر ابو جی کا ایک پاؤں گھر سے باہر ہوتے ہی ریموٹ کنٹرول پر انگلیاں گردش کرنے لگتی ہیں اور جلد ہی ہم اپنے پسندیدہ چینل کی منزل پر پہنچ جاتے ہیں یا گھوم گھوم کے سارے چینل دیکھ لیتے ہیں کہ کہاں کیا لگا ہے اور پھر جو پسند آئے اس کے سامنے جم جاتے ہیں۔ لو جی! پھر سارا دن گھر میں شیطان ہی ناچتا ہے۔ (شکر ہو یہ لوڈشیڈنگ کا جو کچھ وقت کے لئے گھر کے کام کاج نپٹانے کا وقت مل جاتا ہے ورنہ ۔۔۔)
یہ سب کیبل کا کیا دھرا ہے کہ مسیحی گھروں اور گھرانوں میں جوان بہو بیٹیاں ، بیٹے اور بچے ایسے ایسے گانے سنتے، فلمیں اور ڈرامے دیکھتے ہیں کہ خدا کی پناہ! پھر ہماری نوجوان نسل ویلنٹائنز ڈے ، لیٹ نائٹ پارٹیز اور ڈیٹنگ وغیرہ جیسی دیگر گمراہیوں کی طرف کیوں نہ راغب ہو جب کہ ٹی وی کے بیشتر ڈرامے اور کہانیاں ایسے ہی واقعات پر مبنی ہوتی ہیں۔ ان ڈراموں اور فلموں میں ہیرو اور ہیروئن ایسے ایسے کردار اور حرکات آزادانہ کرتے نظر آتے ہیں کہ جوانی کے الہڑ جذبات اور ذہن مشتعل اور ’’سیخ پا‘‘ ہو جاتے ہیں۔ آنکھیں شہوت اور ہوس سے بھر جاتی ہیں۔ پورے بدن میں بجلی سی دوڑ جاتی ہے اور پھر الٹی سیدھی حرکات اور ڈرامے یا فلم کے فنکاروں کی نقل کرنا یا کوشش کرنا ایک فطری عمل ہوتا ہے۔ چونکہ حقیقی زندگی میں ایسے ’’کام‘‘ کرنے کی اجازت نہیں ہوتی اسلئے مختلف حیلوں بہانوں سے چھپ چھپا کر مشتعل جذبات کو تسکین دینے کی راہیں ایجاد یا دریافت کی جاتی ہیں۔ نتیجے کے طور پر نوجوان بیٹے بیٹیاں گھروں سے بھاگ رہے ہیں، راتوں کے خاموش پہروں میں موبائل فون پر ناجائز تعلقات استوار کر رہے ہیں، زناکاری اور بے راہروی دن بدن بڑھتی جا رہی ہے۔ انتہائی حالت میں خود کشی کے واقعات رونما ہو رہے ہیں اور اچھی خاصی عزت و آبرو رکھنے والے والدین کی برسوں کی ساکھ پر ایک لمحے میں عمر بھر کے لئے کالخ مل دی جاتی ہے۔
مسیحی والدین اور بڑے بہن بھائیوں کو چاہئے کہ گھر میں مناسب سختی برتیں۔ خود بھی ایسے پروگرام دیکھنے سے اجتناب کریں تاکہ دوسروں کو بھی منع کر سکیں۔ لیکن استدعا یہ ہے کہ منع کرنے والے بہن بھائی خود بھی ایسے اعمال سے بچیں تاکہ آزادی کے ساتھ بے الزام ہو کر دوسروں کو بھی روک سکیں۔ اس سلسلے میں والدین کو مشورہ دینا چاہوں گا کہ بچوں کو منع کرتے وقت نوجوان بچوں کی جانب سے کسی ضد یا دھمکی کی پرواہ نہ کریں بلکہ دھمکی کی صورت میں اپنے مسیحی پدرانہ و مادرانہ اختیار کا بھرپور استعمال کریں۔ آپ نے زندگی کا زیادہ وقت اور اچھا برا سب دیکھا ہے جو یہ نوجوان طبقہ فی الحال سمجھنے سے قاصر ہے۔ بہتر ہے کہ پیار سے انھیں سمجھائیں کہ یہ سب کام ہماری مسیحی اور خاندانی روایات کے خلاف ہیں اور خود اپنی مثال دے کر یا کسی دوسرے کامیاب مسیحی ایماندار کی مثال دے کرانھیں سمجھانے کی کوشش کریں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ انھیں اپنے چرچ کے یوتھ لیڈر، کوائر لیڈر یا نوجوان پاسٹر صاحب کے ساتھ بیٹھ کر سمجھانے کی کوشش کریں۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ہمارےوالد صاحب کو شروع دن سے ٹی وی سے نفرت ہی نہیں بلکہ چڑ تھی۔ وہ خود چونکہ پاسبان تھے اسلئے ہم نے کئی بار ان کو ٹی وی کے خلاف اور ٹی وی و کیبل کی لعنت سے بچنے پر منادی کرتے ہوئے سنا اور یہی نہیں بلکہ اپنے گھر میں عملی طور پر بھی انھوں نے بڑی سختی رکھی ہوئی تھی۔ مجھے یاد آ رہا ہے کہ ہمارے بچپن میں جب بھی ابو کو معلوم پڑا کہ ہم چوری چھپے کسی ہمسائے کے گھر میں ٹی وی دیکھ رہے ہیں تو فوراً بلایا اور خوب ٹھکائی کی۔ پڑھائی کرنے ، ساتھ بٹھا کر بائبل مقدس پڑھنے اور دعا کرنے کی سختی سے عملی تلقین کی۔ وجہ صرف یہ ہے کہ ہمارے والد ہمیں خالی زبان سے منع کرنے کی بجائے خود ساتھ لے کر ہر روز بلاناغہ عبادت میں بیٹھتے تھے۔ ہمارے والدین خود نیم خواندہ تھے مگر انھوں نے ہمیں اعلیٰ تعلیم دلوائی اور پھر پڑھائی کے ساتھ ساتھ موسیقی کی بہترین تعلیم بھی دلوائی جو خداوند کی خدمت کرنے میں آج بھی ہمارے کام آ رہی ہے اور ہم چاروں بھائی (ہماری بہن نہیں ہے ) اپنی اپنی شخصی بلاہٹ کے ساتھ کسی نہ کسی طرح سے خداوند کی خدمت میں مصروفِ عمل ہیں۔
نوجوان بہن بھائیوں سے بھی التماس کرونگا کہ اگر آپ واقعی مسیحی ایمان میں پاکیزگی اور ترقی کو لانا چاہتے ہیں تو ہمیشہ اپنے والدین کی تابعد اری کریں۔ ٹی وی اور فلمیں اداکاروں کی پیروی کرنے کی بجائے اپنے پاسبان ، یوتھ لیڈر، بائبل مقدس کے اعلیٰ کرداروں اور سب سے بڑھ کر یسوعؔ کی پیروی کرنے کی جستجو کریں۔ یہ سب بطلان اور ہوا کی چران ہے۔ یہ سب شیطان کی جھوٹ پر مبنی چمک دمک ہے۔ یہ سب اس منع کئے ہوئے پھل کی مانند ہے جو حوا اور آدم کو دیکھنے میں خوشنما دکھائی دیا مگر روحانی طور پر موت کا سبب بنا۔ یہ ٹی وی کیبل اخلاقی تباہی ، شیطان کی شہوت پر ستی کی بدروحوں کے قبضہ میں کرنے اور مسیحی ایمان میں کمزور کرنے کی سازش ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ جو کچھ آپ دیکھتے اور دیکھتے رہنا چاہتے ہیں ہوسکتا ہے کہ آپ کے اندر شیطان کی کوئی ایسی تاثیر گھر کر چکی ہو جو آپ کی آنکھوں کی مدد سے ایسے پروگرام دیکھ دیکھ کر تسکین پارہی ہواور آپ کے جذبات سے کھیل رہی ہو؟ خدا را سمجھئے اور ٹی وی کے غلط استعمال پر خاندانی اور شخصی پابندی لگایئے! اپنے آپ کو منظم کریں اور اکیلے ٹی وی دیکھنے سے پرہیز کریں۔ ۲۔ موبائل فون:آج ہر طرف موبائل فون کا حد سے زیادہ بول بالا ہے۔ اور کیوں نہ ہو یہ حقیقتاً ایک شاندار اور ضروری ایجاد اور سہولت ہے بلکہ یوں کہیے کہ اب یہ بھی ہماری ایک طرح سے بنیادی ضرورت بن چکی ہے۔ اور میرا خیال ہے کی آج جس قدر موبائل فون نے ہماری نوجوان نسل کے ہر شعبہ زندگی میں انقلاب برپا کیا ہے کسی اور چیز نے نہیں کیا۔ یوں تو موبائل فون ایک مفید، نہایت کارآمد اور جدید ترین سہولت ہے جس کو آپ ایک سے زائدمقاصد کے لئے بیک وقت استعمال کرسکتے ہیں۔ یہ ایجاد بنی تو فون کا ل کے ذریعے سے فاصلوں کو سمیٹنے کے لئے تھی مگر اب ہم سب جانتے ہین کہ فون کال ، میسج ، کیلنڈر ، کیلکو لیڑ ، میوزک پلئیر ، ریڈہو ، اسٹل اور ویڈیو کیمرہ ، انٹر نیٹ یعنی سب کچھ اس میں شامل کردیا گیا ہے جس کی آج کے ہر مثالی نوجوان کو ضرورت ہے۔ شکر یہ ادا کیجئے عظیم موجد الیگز ینڈ ر گراہم بیلؔ کا جس نے فون ایجاد کیا اور پھر شکریہ ادا کیجئے موٹر و لا کمپنی کے وائس پریذیڈنٹ جناب مارٹن کوپر(Martin Cooper) کا جس نے جدید موبائل فون ایجاد کیا۔ یہ حقیقتاً ایک شاندار ایجا د ہے مگر افسوس کہ ہرا یجاد ہوتی تو سہولت پہنچانے کے لئے ہے مگر شیطان اور اس کے کارندے ہر ایجاد میں سہولت سے زیادہ مصیبت بھر کے اسے مارکیٹ میں بھیجتے ہیں۔ اس ایک فون نے گھر گھر کیا کیا گل کھلار کھے ہیں وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔
آئیے ذرا اس جدید ایجاد یعنی موبائل فون پر نوجوانوں کی چند موغوب ترین سرگرمیوں کا سرسری جائزہ لیں: فون کال:کوئی زمانہ تھا کہ محبوب کو محبوبہ یا ایک دوسرے سے ملنے ، بات کرنے اور شکل دکھانے کے لئے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے تھے اور پھر بھی تشنگی رہتی تھی کیونکہ دل کھول کر بات نہیں ہو پاتی تھی۔ زیادہ دور مت جایئے۔ ذرا ہم سے پچھلی نسل یعنی ہمارے ماں باپ کے زمانے میں چلے جایئے جب شرم و حیا کی یہ کیفیت ہوتی تھی کہ کسی غیر یا بزرگ کے سامنے مخالف جنس سے بات کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا اور اجازت و سہولت نہیں ملتی تھی۔ مگر اس نا معقول فون کال کی سہولت نے نوجوانوں کے لئے ساری مشکلیں آسان کر کے ان بزرگوں اور شرم و حیا رکھنے والے لوگوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے ۔ رات جب زمانہ سوتا ہے تو ہمارے نوجوان جاگتے ہیں۔ مختلف نیٹ ورک کمپنیوں نے مزید مشکلات آسان کرنے میں اپنا حصہ یوں ڈالا کی ایسے ایسے نائٹ پیکج متعارف کرا دیئے ، جیسے کہ ’’ساری رات، لمبی بات ، روپئے سات‘‘ ۔ یہ رات کے پیکج بھی جب کم پڑنے لگے تو دن کے بھی پیکج نکل آئے اور عاشق خواتین و حضرات کے لئے ہر دن عید اور ہر رات شب برات (محاورتاً) ہوگئی۔ پھر اس پر مسڈکال ور رانگ کال کے الگ ڈرامے اور قصے مشہور ہیں جو سر ا سر غلط ہیں۔ آج ہم جگہ جگہ گلی گلی گھر گھر نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو کونوں میں ہینڈ ز فری ٹھونسے، ہلکی اور دھیمی آواز میں سر گوشیانہ باتیں کرتے دیکھتے ہیں۔ خدا جانے یہ کیسی باتیں ہوتی ہیں کہ ماں باپ اور بہن بھائیوں کے سامنے نہیں ہو سکتیں اور پھر ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتیں (کس کو نہیں پتہ؟)۔ لازماً ان میں کچھ ایسا ضرور ہے جو درست نہیں اور ان دلوں و ذہنوں پر اس قدر چھایا ہوا ہے کہ اپنی زندگی بھی تباہ کر رہے ہیں اور دوسرے شخص کی بھی۔
میرے نوجوان بھائیو اور بہنو! کیوں اپنا اور دوسرے کا قیمتی وقت ، نیند اور حلال پیسہ ضائع کرتے ہو؟ خدا رااس پھندے سے نکل آؤ۔یہ کام اچھا نہیں۔ اپنی ماں اور اپنے باپ کی عزت کا خیال کرو جو بیچارے آپ کو ایسا کرتے دیکھ کر فقظ خون کے گھونٹ پی کر رہ جاتے ہیں کیونکہ اس لعنت نے آپ کو اس قدر عادی بنادیا ہے کہ آپ کو ماں باپ کی میٹھی باتیں اور نصیحتیں بھی زہر لگتی ہیں اور آپ ان سے لڑتے جھگڑتے ، واو یلا اور احتجاج کرتے اور چھپ چھپا سب کچھ کرتے ہیں۔آپ کو معلوم بھی ہے اور دل گواہی دیتا ہے کہ یہ غلط کام ہے مگر چھوڑ نہیں پاتے۔ گناہ کا یہی طریقہ ہے اور وہ ایسا ہی حال کرکے چھوڑتا ہے۔ اب صورت یہ ہے کہ کسی اور کام میں دل نہیں لگتا کیونکہ اس فون کال نے آپ کے ذہن پر مکمل قبضہ کرلیا ہے اور شیطان اس سے ناجائز فائدہ اٹھا کر آپ دونوں کا ذہن، شخصیت اور کردار تباہ کررہا ہے۔ کیا آپ اسے ایسا کرنے دیں گے؟ کیا آپ خدا کے حضور اپنی شادی کا انتظار نہیں کر سکتے َ اپنی تعلیم ، کام، خاندان اور شخصی زندگی پر توجہ دیں اور پہلے ایک شاندار کیر ئیر بنائیں اور اپنی شادی کا معاملہ اس خدا کے ہاتھ میں دے دیں جس پر آپ ایمان رکھتے ہیں اور وہ یقیناً آپ کی سوچ سے بہتر کام کرے گا۔ شیطان کو موقع نہ دیں۔ اگر آپ ایسا کریں تو آپ مبارک ہیں!
میسج یعنی ایس ایم ایس (چیٹنگ):جی ہاں ، نوجوانوں کی موغوب ترین سرگرمی۔ ادھر کال بند ہوئی یا اگرامی ابو گھر پر ہیں اور کال نہیں ہو سکتی تو میسج زند ہ باد ۔ زبان ہی بدل گئی ہے کہ انگریزی کی بجائے گلابی انگریزی یعنی جسے رومن انگریزی /اُردو کا نام دیا گیا ہے۔ جس میں زبان تو اردو کی ہوتی ہے مگر ہجے انگریزی میں لکھے جاتے ہیں۔ واہ ایجادات پر ایجادات اور سہولیات پر مزید لوکل سہولیات۔ ان کے بھی پیکج ہوتے ہیں اور نہایت سستے ۔ چند روپوں میں ہزاروں ایس ایم ایس ۔ آج ایس ایم ایس ، بین الاقوامی سطح پر فوری اور سستے رابطے کا ذریعہ بن چکے ہیں جو ایک عمدہ ، مفید اور تسلی بخش بات ہے مگر دن بھر کام کے ایک ایس ایم ایس کے ساتھ جو ہزاروں لطیفوں، ٹوٹکوں ، چٹکلوں ، شاعری اور غلیظ و فحش باتوں پر مبنی ایس ایم ایس موصول ہوتے ہیں وہ بڑی مصیبت اور سر درد بن چکے ہیں اور پھر اس پر طرہ یہ کہ نیک میسج زیادہ پذ یرائی نہیں حاصل کر پاتے مگر جس قدر زیادہ گندہ میسج ہوگا اسی قدر زیادہ پھیلایا جاتا ہے۔
اگر آپ اس سے جان چھڑانا چاہتے ہیں تو اس کا ایک حل ہے۔ آپ خود ایسا کوئی ایس ایم ایس یا ایم ایم ایس نہ بنائیں ۔ کسی بھی نا معلوم نمبر سے موصول کردہ میسج پڑھنے یا دیکھنے سے پہلے ڈیلیٹ کریں۔ اخلاق باختہ اور غیر ضروری میسج کسی صورت فاروڑ نہ کریں۔ اگر ہو سکےتو ایسے میسج بھیجنے والے کے نمبر کو بلاک کریں۔ روحانی اور مسیحی ایمان کی راہ تنگ ہے اور دنیا کی راہ کھلی اور کشادہ ہے۔ اگر آپ مسیحی ایمان میں ترقی کرنا چاہتے ہیں تو ایسی اخلاق سوز دنیوی ترقی پر لعنت بھیج کر آگے بڑھیں۔ خداوند آپ کو برکت دے گا اور آپ کی زندگی زیادہ آزاد، خوشحال اور پرسکون ہوگی۔ آپ کو ایسا کرنا ہی ہوگا!
میوزک / وڈیو پلئیر:قریب قریب ہر موبائل فون میں میوزک /ریڈیو اور وڈیو کی سہولت شامل ہوتی ہے۔ موبائل فون کی میموری اور فارمیٹ کے مطابق گانوں اور فلموں کی گنجائش بھی موجود ہوتی ہے اور یقیناً ہر شخص اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ وہ زمانے گئے جب واک مین اور سی ڈی پلئیر کے مدد سے آپ میوزک سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ بلکہ آج ہم ہزاروں کی تعداد میں گیت ، گانے اور فلمیں اپنے موبائل پر لوڈ کرکے سن سکتے ہیں۔ دوسرا اس پر بلو ٹوتھ اور وائی فائی جیسی سہولیات نے اسے مزید آسان بنا دیا ہے کہ اگر کوئی میوزکل کلپ آپ کے موبائل میں نہیں تو آپ دوسرے شخص کے فون سے اسے اپنے فون میں بآاسانی اور پلک جھپکتے منتقل کرسکتے ہیں۔ یہ عمدہ سہولیات ہیں مگر آج کے نوجوان کا شوقِ موسیقی عجیب ہے۔ ہر تازہ ترین فلم یا اس کے پورے گانے ہر موبائل میں ضرور رکھے جاتے ہیں۔ اس ضرورت کے پیش نظر آج گلی گلی میں مختلف کمیو نیکیشن کے نام سے دکانیں کھل چکی ہیں جہاں چند رپوں کے بدلے ہر قسم کے تازہ ترین یا پرانے انڈین، پاکستانی اور انگریزی گانے اور ’’ٹوٹے‘‘ آپ کے فون پر ڈاؤن لوڈ کردیئے جاتے ہیں۔ یہ گانے بھی ایسے ہیں کہ خدا کی پناہ! شہوت، ہوس اور دنیوی محبت کے نشے سے بھی پور شاعری اور ہیجان خیز موسیقی ، جو نوجوانوں کو بے راہردی اور اخلاقی سوزی کی راہ پر ڈال رہی ہے۔ ایسے گانے سن سن کر نوجوانوں میں شہوت پر ستی سے بھر پور جذباتی دباؤ بڑھ رہا ہے جو نہایت خطرناک ڈائنامائیٹ کی مانند ہے۔ شادی بیاہ اور دیگر پروگراموں پر ایسے نوجوان اپنے موبائل فون ڈی جے کے ساتھ منسلک کرکے بڑی کامیابی کا اظہار اور دوسرے منچلے نوجوان ان گانوں پر اندھا دھند ڈانس کررہے ہوتے ہیں ۔ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟
کیا ہم مسیحی ہیں؟ کیا ہمارے موبائل فون میں مسیحی گیت اور زبور نہیں ڈالے جا سکتے ؟ جی ہاں ، گانوں کے دس دس فولڈرز کے ساتھ کہیں کونے میں ایک گیتوں یا زبوروں کا بھی فولڈر موجود ہوتا ہے۔ افسوس! کیا آپ ایک ہی باڑے میں ایک بھیڑ اور دس بھیڑ یئے اکٹھے پال سکتے ہیں؟ کیا آپ چشمے سے دو طرح کا پانی نکال سکتے ہیں؟ کیا آپ کے کانوں کے ذریعے آپ کی روح ، شیطانی موسیقی اور روحانی موسیقی دونوں سے بیک وقت فیض حاصل کرسکتی ہے؟ مسیحی کی پہچان اس کی مسیحی ایمان پر مبنی موسیقی ہے۔ اس کے گیت مسیح کی شان پر لکھے اور گائے گئے ہیں۔ کوئی نوجوان مسیحی دو مالکوں کی خدمت نہیں کرسکتا۔ ہمارا ایک پرانا مسیحی گیت مجھے اس وقت یادآرہا ہے جس کا ایک مصرعہ ہے "جس گیت میں تو نہ ہو وہ گایا نہ کریں گے" ۔ جس گیت میں ہمارے خداوند یسوع مسیح کا نام نہیں وہ گیت ہم گائیں گے نہ سنیں گے۔ آج ہماری یوتھ کو کچھ اس طرح کا انقلابی عزم اور پختہ ارادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ آپ اپنے موبائل میں سے تمام شیطانی موسیقی کے کلپ نکال کر اس میں مسیحی گیت زبور اور آڈیو بائبل ڈاؤن لوڈ کریں اور وقتاً فو قتا کلام کی ایمان افروز باتیں سنیں۔ خدا را، دو غلی ، روحانی نفسانی زندگی نہ گزاریں۔ خدا کی پرستش کریں یا بعل کی۔ آپ کو کسی ایک کا چناؤ کرنا ہے۔ آپ شیطان کے ساتھ روحانی سمجھوتہ نہیں کر سکتے ۔ کسی دھوکے میں مت رہیں!
۳۔ ڈیٹنگ (Dating):نوجوانو ں کی ہوس کی تسکین کرنے کی ایک اور تفریح جو مسیحی نوجوانوں کے لئے کسی صورت قابل قبول نہیں۔ ہوتا کیا ہے کہ پہلے پہلے ایس ایم ایس یا فون کال کے ذریعے تعلق یا دوستی استوار ہوتی ہے اور پھر وہ دوستی جھوٹی محبت اور عشق میں تبدیل ہوتی ہوئی اس نہج پر لے آتی ہے کہ ایک دوسرے کو دیکھنے اور اکٹھے وقت گزارنے کی خواہش میں کہیں بالمشافہ ملاقات کا پروگرام بنایا جاتا ہے جو کہ عمو ماً کوئی پارک ، ریستوران یا کوئی اور تفریحی مقام ہوتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ نہ صرف ملازمت کرنے والے مسیحی نوجوان لڑکے لڑکیاں اس میں زیادہ ملوث پائے جاتے ہیں بلکہ اسکول یا کالج جانے والے طلبہ و طالبات بھی اس مرض میں مبتلا ہوچکے ہیں۔ بلکہ ایک اور کڑوی حقیقت یہ ہے کہ مسیحی لڑکا یا لڑکی غیر مسیحی اور نامحرم شخص کے ساتھ Dateپر جاتے ہیں اور ہم سب جانتے ہیں کہ اس کا نتیجہ اس مسیحی شخص کو ہی نہیں بلکہ اس کے پورے مسیحی خاندان اور کئی صورتوں میں پوری مسیحی قوم کو شرمندگی کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے۔ ہماری مسیحی قوم نے اسی وجہ سے پہلے کئی مرتبہ خفت اٹھائی ہے برائے مہربانی اب ایسا مت ہونے دیں۔
یہ عمل سر ا سر غلط ، دھوکا اور گناہ ہے ۔ مسیحی ایمان کے مطابق ہمیں ہر ایسے قدم کی نفی کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم کمر شلا ئزڈ اور دنیا دا ر مسیحیوں کی نقل کر کے اپنی انفرادی شخصیت اور خاندان کی تذلیل کا باعث نہ بنیں۔ برائے مہربانی کسی صورت نام نہاد مسیحی مغربی معاشرے کی نقل کرنے کی کوشش مت کریں۔اپنے شریف اور عزت دار خاندان کی لاج اور ساکھ کی شرم کھائیں۔ ہمارے مشرقی مسیحی معاشرے اور خاندا ن کی ایک جد ا گانہ اور الگ پہچان ہے اسے مسخ مت ہونے دیں۔یاد رکھیں بائبل مقدس میں صاف صاف لکھا ہے’’بے ایمانوں کے ساتھ ناہموار جوئے میں نہ جتو کیونکہ راستبازی اور بے دینی میں کیا میل جول ؟ یا روشنی اور تاریکی میں کیا شراکت ؟ مسیح کو بلیعال کے ساتھ کیا موافقت ؟ یا ایماندار کا بے ایمان سے کیا واسطہ؟۔۔۔‘‘ (۲۔ کرنتھیوں ۶: ۱۴۔ ۱۵) ۔
۴۔ کمپیوٹر ، انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا (Social Media) :انٹر نیٹ کی دنیا فاصلوں کو سمیٹتے ہوئے پھیلتی جا رہی ہے۔ بے شمار فوائد کے ساتھ ان گنت نقصانات اور خطرات بھی بڑے پیمانے پر اور صرف ایک کلک کے فاصلے پر موجود ہیں۔ انٹر نیٹ کی دنیا میں سوشل ویب سائٹس نے ایک اپنی الگ دنیا بسار کھی ہے اور نوجوانوں کی دنیا میں ایک منفردتہلکہ مچا رکھا ہے۔ ان سوشل ویب سائٹس میں فیس بک، ٹویٹر (موجودہ ایکس) اور یو ٹیوب سرِفہرست ہیں (اور آج کل ٹک ٹاک اور انسٹا گرام بھی)۔ ہم سب ان کے روز مرہ استعمال کنندہ ہیں اور بہت سے ایسے فوائد حاصل کر رہے ہیں جن کا آج سے پہلے نام و نشان تک نہ تھا۔ مگر سچ کہا جاتا ہے کہ کسی بھی کام کی زیادتی اچھی نہیں ہوتی۔ اچھی چیز تب تک اچھی ہے جب تک ہم اس اعتدال اور میانہ روی کہ ملحوظِ خاطر رکھتے ہیں۔میں ایسے بہتیرے نوجوانوں کو خصوصاً اسٹوڈنٹس کو دیکھتا ہوں جو فیس بک، ٹویٹر وغیرہ کے رسیاہیں اور انھیں اپنے نصاب کی بکس پر وقت صرف کرنے کی بجائے فیس بک استعمال کرنے کا زیادہ شوق ہے۔ ماں باپ جواِن کا تعلیمی بوجھ پہلے ہی مشکل سے سہا ر رہے ہیں ،ان کے سامنے ضد کی جاتی ہے کہ’’ ہمیں بھی کمپیوٹر لے کر دیا جائے کیونکہ ہمارے بہت سے کلاس فیلوز فیس بک اور ٹویٹر یوز کرتے ہیں اور جب وہ ہم سے پوچھتے ہیں تو ہمیں بڑی شرمندگی ہوتی ہے۔‘‘ نوجوان اور جوان بچے اپنے گھر کے حالات سے بخوبی واقف ہونے کے باوجود ماں باپ پر اضافی بوجھ ڈالتے ہیں۔ کیونکہ فیس بک یا ٹو ئٹر استعمال کرنے کے لیے کمپیوٹر کے ساتھ انٹرنیٹ کنکشن بھی درکار ہوتا ہےجو یقیناً ماں باپ پر مزید بوجھ کے مترادف ہے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ بچے کمپیوٹر اور انٹر نیٹ استعمال نہ کریں مگر میں صرف یہ سمجھتا اور کہتا ہوں کہ اگر ماں باپ افورڈ نہیں کرسکتے یا کسی اخلاقی و دانشمند ا نہ دانست کے مطابق ابھی لے کر دینا نہیں چاہتے تو انھیں اس کے لئے خوامخواہ قرض لینے یا کوئی اور مشکل قدم اٹھانے پر مجبور نہ کیا جائے۔ آپ سے پہلے کی نسل کے لوگوں نے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے بغیر بھی تعلیم حاصل کی ہے اور شاید آپ سے بہتر نتائج اور کیر ئیر بنایا ہے۔
نقصانات:- وقت کا بے دریغ استعمال اور ضیاع ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسی دلکش دنیا ہے جس میں اگلا کھیت زیادہ ہرا دکھائی دیتا ہے اور یوں نہ چاہتے ہوئے بھی بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ آپ پانچ منٹ کا تہیہ کرکے بیٹھیں گے مگر جب آپ اٹھتے ہیں تو وہ پانچ منٹ دو گھنٹے پہلے گزر چکے ہوتے ہیں۔
- نوجوان ان کے بری طرح شکار اور عادی ہو جاتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ جب آپ کسی چیز کی لت میں گرفتار ہو جاتے ہیں تو اس کی سب سے بڑی نشانی یہی ہوتی ہے کہ آپ اس کے غلط استعمال اور منفی اثرات کو اچھی طرح سمجھتے اور جانتے ہوئے بھی خود کو اس سے باز نہیں رکھ پاتے۔ جیسے کوئی نشہ باز، نشے کے دھیرے دھیرے اثر کرنے والے مہلک اثرات اور نتائج سے واقف ہونے کے باوجود چھوڑ نہیں پاتا۔
- موبائل فون ہو یا کمپیوٹر، اگر آپ کی حالت ایسی ہو چکی ہے تو آپ کو اپنے آپ کو منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ بہتر یہ ہے کہ کچھ عرصے تک کے لئے ان کا استعمال بالکل ترک یا نہایت کم کر دیا جائے۔
- چیٹنگ، ویڈیوز، تصویروں کی شئیرنگ اور دیگر ایسی سرگرمیوں میں پڑ کر پڑھائی، کام کاج اور خاندانی تعلقات متاثر ہو رہے ہیں۔
- ایسی ویب سائٹس آن لائن ڈینٹنگ پوائنٹ بن چکی ہیں۔ وقت متعین کرکے آن لائن آکر ویب کیم یا کی بورڈ کی مدد سے چیٹنگ کی جاتی ہے اور وقت برباد کیا جاتا ہے۔
- جھوٹے ناموں سے موجود لوگ دلکش تصویروں اور پیغامات کے ذریعے لوگوں کو اپنے فراڈ کا نشانہ بنا رہے اور لوٹ رہے ہیں۔
- سب سے پہلے یہ کہ اس کے عادی نہ ہوں۔ محض تفریح کے لئے، فارغ وقت میں اور تھوڑی دیر کے لئے استعمال کریں (ہلکی سی اجازت اس لئے دے رہا ہوں کیونکہ شاید مکمل طور پر بند کرنا ناگوار گزرے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ مکمل طور پر بند کر دینا چاہیے تو کیا بات ہے!) امتحانات کے دنوں میں تو اسے بالکل بند رکھیں۔ محتاط رہیں، یہ نہ ہو کہ کثرتِ استعمال کے باعث آپ اسکول یا چرچ جانے اور یا گھر کا کوئی کام وقت پر کرنے سے قاصر رہ جائیں۔
- اپنی شناخت کو جس قدر پوشیدہ رکھ سکتے ہیں رکھیں۔
- اپنے گھر یا دفتر کا پتہ، فون نمبر اور دیگر ضروری معلومات کبھی ظاہر نہ کریں۔
- اپنے دوستوں (friends) کی تعداد اندھا دھند بڑھانے کے چکر میں نا معلوم لوگوں کو add کرنے سے گریز کریں۔
- یہاں موجود لوگوں، تصویروں، آڈیو وڈیو کلپس یا دیگر ویب سائٹس کے لنکس میں سے ان کو کلک کریں جو آپ کی تعلیمی، اخلاقی، دینی اور کرداری ترقی کا باعث بن سکتے ہیں۔ غیر ضروری یا نا معلوم لنکس سے گریز کریں اور کسی قسم کا رسک مت لیں!