(ایم اے انگریزی ادب، بی ٹی ایچ)
۲۰۱۴ء میں امریکہ سے ایک انگریزی مسیحی ڈرامہ فلم ریلیز ہوئی تھی جس کا نام تھا ’’ God’s Not Dead ‘‘ ۔ اِس فلم نے منظرِ عام پر آتے ہی ایک طرف تو خُدا کے وجود کا انکار کرنے والوں کو بُری طرح پچھاڑ کے رکھ دیا اور دوسری طرف ایمانداروں کے لئے دفاعِ ایمان کے حوالے سے سوچنے سمجھنے کی نئی جہتیں بھی متعارف کرائیں ۔ اِس فلم میں ہوتا یوں ہے کہ جوش وہیٹن ؔ (Josh Wheaton) نامی ایک مسیحی اسٹوڈنٹ کا اپنے ایک ملحد فلسفی پروفیسر جیفری ریڈیسنؔ (Jeffrey Radisson) کے ساتھ اُس وقت ایک تنازعہ شروع ہو جاتا ہے جب وہ بھری کلاس میں سب کے سامنے خُدا کو ایک من گھڑت اور افسانوی کردار کہہ کر کلاس کے سارے طلبا و طالبات سے کہتا ہے کہ وہ سب ایک ایک کاغذ پر بڑے بڑے حروف میں لکھیں ’’God is dead‘‘ اور پھر اُس کاغذ پر اپنا اپنا نام لکھ کر اُسے جمع کرائیں تب ہی وہ اُنہیں امتحان میں پاس کرے گا۔ جوشؔ اپنی جماعت کا واحد اسٹوڈنٹ ہے جو یہ لکھنے سے انکار کر دیتا ہے۔ جرح کرنے پر بھی جب جوشؔ اپنے استاد کے ساتھ اتفاق نہیں کرتا تو اُستاد اُسے اِس موضوع پر پوری کلاس کے سامنے مناظرہ کرنے کی دعوت دے دیتا ہے جس کا فیصلہ پوری کلاس کرے گی کہ کون جیتا اور کون ہارا۔ پہلے دو مناظروں میں پروفیسر جوشؔ کے سارے دلائل کو اُڑا کے رکھ دیتا ہے۔ جوشؔ کی ہار واضح طو رپر دیکھتے ہوئے ، کہ اب اُس کا تعلیمی کیرئیر تباہ ہو جائے گا، اُس کی گرل فرینڈ کیراؔ (Kara) اُسے چھوڑ جاتی ہے۔ تیسرے اور حتمی مناظرے میں ، جوشؔ جب اپنے پروفیسرسے یہ سوال پوچھتا ہے کہ ’’آپ خُدا سے اتنی نفرت کیوں کرتے ہیں؟‘‘ تو پروفیسر غصے سے لال پیلا ہو کر اُسے بتانے لگتا ہے کہ کس طرح اپنی ماں کی ناگہاں موت کے درد ناک مناظر دیکھ کراُسے خُدا سے نفرت ہو گئی تھی۔ تب جوشؔ اُس سے پوچھتا ہے کہ اگر خُدا کا کوئی وجود ہی نہیں تو آپ نفرت کس سے کر رہے ہیں؟ اِس بات کا پروفیسر کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا۔ پروفیسر کو آئیں بائیں شائیں کرتا دیکھ کر ایک چائینز اسٹوڈنٹ اپنی جگہ سے اُٹھ کر نعرہ لگا دیتا ہے ، ’’God’s Not Dead‘‘۔ اِس کے بعد اَوربھی کئی اسٹوڈنٹس کھڑے ہو کر یہی نعرہ دہرانے لگتے ہیں کہ ’’God’s Not Dead‘‘ جس پر پروفیسر جھنجھلا اُٹھتا ہے اور پھر ہارے ہوئے انداز میں کلاس روم سے باہر چلا جاتا ہے۔
اِس کے بعد اِس فلم کے تین اَور سیکوئیل بھی آئے اور ابھی ۲۰۲۴ کے ماہِ ستمبر میں اِس کا پانچواں سیکوئیل بھی ریلیز ہو چکا ہے اور یہ سارے سیکوئلز بھی مَیں نے دیکھ رکھے ہیں۔ آپ بھی ضرور دیکھئے گا کیونکہ اُن سے بھی آپ کو اِس حوالے سے بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔ میرے اپنے تجربے کے مطابق خُدا کی ذات کو سمجھنے کا سب سے بڑا ذریعہ بائبل مقدس ہے جسے ہم خُدا کا الہامی کلام مانتے ہیں مگر بائبل مقدس کے علاوہ مَیں نے موضوعِ ہذ ا کو مزید گہرائی کے ساتھ سمجھنے کے لئے دیگر ذرائع سے استفادہ کیا جن میں قاموس الکتاب اور انگریزی سے اُردُو زبان میں میری اپنی دو ترجمہ کی ہوئی کتب (۱) جوش میکڈوول صاحب کی تصنیف ’’خدا اور بائبل کے بارے میں اکثر پوچھے جانے والے ۷۷ سوالات‘‘ ، اور (۲) کینتھ رچرڈ سیمپلز کی کتاب ’’بلا شک و شبہ‘‘ شامل ہیں۔
خُدا کے وجود کو سمجھنے کے حوالے سے ہاتھی اور چار اندھوں کی مثال بہت عام ہے لیکن آج ہم اِس میں ایک اَور کردار کا اضافہ کرکے خُدا کی حقیقت کو سمجھنے کا درست طریقہ معلوم کرنے کی کوشش کریں گے۔ کہا جاتا ہےکہ چار اندھے تھے جنہیں معلوم ہُوا کہ شہر میں ہاتھی آیا ہے چنانچہ اُنہوں نے ہاتھی کو دیکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ چونکہ وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ تو سکتے نہیں تھے اِس لئے اُنہوں نے ہاتھی کے قریب پہنچ کر اُسے چھو اور ٹٹول کر اندازہ لگانے کی کوشش کی کہ ہاتھی کیسا ہوتا ہے۔ لہٰذا چاروں اندھے آگے بڑھے اور جس کے ہاتھ ہاتھی کے جسم کا جو حصہ لگا اُس نے سمجھا کہ ہاتھی ایسا ہوتا ہے۔ اِس کے بعد جب وہ اپنے محلے میں واپس آئے تو لوگوں نے پوچھا کہ ہاتھی کے بارے میں بتائیں کہ ہاتھی کیسا ہوتا ہے تو ہر ایک نے اپنے اپنے تجربے کی روشنی میں بتانا شروع کیا ۔ جس اندھے کا ہاتھ ہاتھی کی سونڈ پر لگا اُس نے کہا ہاتھی ایک موٹے بانس جیسا ہوتا ہے۔ دوسرے کا ہاتھ ہاتھی کے کان پر لگا تھا تو اُس نے کہا کہ ہاتھی تو ہاتھ والے پنکھے جیسا ہوتا ہے۔ تیسرے نے کہا جس کا ہاتھ ہاتھی کی ٹانگ پر لگا تھا، ہاتھی ایک ستون جیسا ہوتا ہے۔ اور چوتھے اندھے نے چونکہ اُس کے دانت کو چھؤا تھا اُس نے کہا کہ ہاتھی ایک سخت، مگر گول تلوار جیسا ہوتا ہے۔ تبھی ایک ایسے آدمی کا پاس اُن کے پاس سے گزر ہوتا ہے جس نے اپنی آنکھوں سے ہاتھی کو دیکھ رکھا تھا ۔ اُن کی باتیں سُن کر وہ اُن کے پاس رُک کر اُنہیں سمجھاتا ہے کہ تم سب لوگ ہاتھی کو اپنے اپنے طور پر بیان کر رہے ہو مگر ہاتھی اِس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ ویسے تم چاروں اپنی اپنی جگہ ٹھیک کہہ رہے ہو مگر تم میں سے کوئی بھی ہاتھی کو پورے طور پر بیان نہیں کر پا رہا۔ پھر وہ اپنے تجربے کی روشنی میں اُنہیں بتاتا اور سمجھتا ہے کہ ہاتھی درحقیقت کیا ہوتا ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ پانچواں شخص وہ مسیحی ایماندار ہے جس کی روحانی آنکھیں کھلی ہیں اور وہ بائبل مقدس ، یسوع مسیح پر ایمان اور روح القدس کی معموری سے حاصل کردہ معرفت کے وسیلہ سے خُدا کو دوسروں کی نسبت زیادہ بہتر انداز میں جانتا اور سمجھتا ہے۔